بدھ, جولائی 3, 2024
اشتہار

عدالت سے گرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، چیف جسٹس کے ریمارکس

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر ریمارکس دیئے عدالت سےگرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری پرہائیکورٹ فیصلے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے درخواست پرسماعت کی، سپریم کورٹ کے بینچ میں جسٹس محمدعلی مظہر اورجسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

- Advertisement -

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی قانونی ٹیم سپریم کورٹ میں پیش ہوئیں، وکیل حامدخان نے بتایا کہ عمران خان قبل از گرفتاری ضمانت کیلئے عدالت آئے تھے ، گرفتاری کےوقت عمران خان سے بدسلوکی کی گئی، عمران خان بائیومیٹرک کرارہے تھے تو دروازہ توڑ کر گرفتار کیاگیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا عمران خان ہائیکورٹ میں کس کیس میں پیش ہوئے تھے،،وکیل عمران خان نے کہا دروازہ اور کھڑکیاں توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا، بائیو میٹرک کرانا عدالتی عمل کاحصہ ہے، عمران خان کیساتھ بدسلوکی اور پرتشدد گرفتاری ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق مقدمہ شاید کوئی اور مقرر تھا، خوف کی فضا بنائی گئی، کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتارکیاجاسکتاہے۔

جسٹس عطا عمر بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ماضی میں عدالت میں توڑپھوڑ پر وکلا پر توہین عدالت کی کارروائی کی گئی، کسی فرد نے عدالت میں سرنڈر کیا تو اس کو گرفتار کرنے کا کیا مطلب، عدالتی حکم کے مطابق درخواست ضمانت دائر ہوئی تھی لیکن مقررنہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا بائیومیٹرک سے پہلے درخواست دائر ہوجاتی ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا عمران خان کو نیب کےکتنے افراد نے گرفتار کیا؟ وکیل عمران خان نے بتایا کہ عمران خان کو 80 سے 90 افراد نے گرفتار کیا،جس پر چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا 90افراد احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیاتوقیر رہی؟ کسی بھی فرد کو احاطہ عدالت سے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس عطا عمر بندیال نے ریمارکس دیئے کوئی شخص بھی آئندہ انصاف کیلئے خود کو عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، گرفتاری سے قبل رجسٹرار سے اجازت لینا چاہیے تھا۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ نیب اس قسم کی حرکتیں پہلے بھی کرچکا ہے، ایسے ہتھکنڈوں اور کارروائیوں کا اختتام ہوناچاہیے، اگر لوگوں کا عدالتوں پر اعتماد ختم ہوگیا تو کیا ہوگا۔

وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ بائیو میٹرک کے بغیر درخواست دائر نہیں ہو سکتی، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے
پہلی بات یہ ہے عمران خان احاطہ عدالت میں داخل ہوچکے تھے، ایک مقدمےمیں عدالت نےبلایا تھا، دوسرا دائر ہورہا تھا،کیا انصاف تک رسائی کے حق کو ختم کیا جا سکتا ہے۔

،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے،نیب نے ایک ملزم سپریم کورٹ پارکنگ سے گرفتار کیا تھا، عدالت نے گرفتاری واپس کراکرنیب کےخلاف کارروائی کی، نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی آئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی، نیب کی یقین دہانی سے9افسران توہین عدالت سےبچے تھے۔

وکیل نے بتایا کہ عمران خان بائیومیٹرک کرا رہے تھے تورینجرز نے ہلا بولا،جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
اگررینجرزاحاطہ عدالت میں آئےگی تواحترام کہاں گیا۔

وکیل سلیمان صفدر کا کہنا تھا کہ آئی او کی عدم موجودگی میں نیب نے عمران خان کو گرفتار کیا، سپریم کورٹ کو عدالت کی توقیر کو بحال کرنا ہوگا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے نیب ایسے کئی سالوں سے کر رہا ہے،نیب نے منتخب عوامی نمائندوں کو تضحیک سے گرفتار کیا،یہ طریقہ کار بند کرنا ہوگا۔

وکیل بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ عمران خان کی درخواست کو ڈائری نمبر لگ چکا تھا اور ہم نے اسی دن درخواست سماعت کی استدعا کی تھی، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو ماحول پیدا کیاگیا وہ افسوسناک ہے ،یہ عدالتوں کے احترام کا طریقہ کار نہیں۔

وکیل عمران خان نے بتایا کہ سیکریٹری داخلہ کو بھی گرفتاری کے وارنٹ کا علم نہیں تھا، رول آف لا پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ایسے حالات پیدا ہوئے ، عمران خان گھر یا عدالت کے باہر گرفتار ہوتے تو کیس دائر ہی نہ کرتے، رینجرز نے عمران خان سے بدسلوکی کی اور ان کو گرفتار کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا وارنٹ گرفتاری چیلنج کئے گئے؟ ، وکیل بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ ہمیں وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کا پتہ نہیں چلا،سیکریٹری داخلہ نےبتایا وارنٹ گرفتاری کے اجراکا معلوم نہیں تھا، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے لیڈرز عدالت میں پیشی پر لوگوں کو ساتھ لیکر مت آئیں، ہر پیشی پر عدالتوں کے باہر ہنگامے ہوتے تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے اسوقت ہم گرفتاری کے طریقے اور عدالت کی توقیر کا معاملہ دیکھیں گے، ہر کسی کو عدالت کے اندر تحفظ ملنا چاہیے، ہم ابھی اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہیں،ہم عدالت کی توقیر کو بحال کریں گے، میانوالی کی ڈسٹرکٹ کوٹ ہر حملہ کیا گیا جو بدقسمتی ہے۔

جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ عدالت پر حملے پر آج میرا دل دکھا ہے، ایسے کیسے ہورہا ہے اور کوئی نہیں روک رہا؟ وارنٹ کی تعمیل کیسے ہوئی یہ سب سے اہم ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہر کوئی قانون کی عملداری کی بات کرتاہے لیکن خود عمل نہیں کرتے، ہر کوئی چاہتاہے کہ دوسرا قانون پر عملدرآمد کرے، قانون پرعملدرآمد نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں،تو انھوں نے کہاعمران خان کی رہائی کا حکم دیاجائے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وارنٹ کی قانونی حیثیت کانہیں اس کی تعمیل کاجائزہ لیں گے جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے سرنڈر کے عمل کو سبوتار نہیں کیا جاسکتا۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان پر حملہ کیا گیا اور سکیورٹی بھی واپس لےلی گئی، عمران خان دہشتگردوں کے ریڈار پرتھے، رینجرز نے جس انداز میں گرفتاری کی اس کی مثال نہیں ملتی، گرفتاری کے وقت نیب کا تفتیشی افسر موجود نہیں تھا، عمران خان کو ججز گیٹ سے رجسٹرارکی اجازت کےبغیر لے جایا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ نیب کئی سال سےیہ حرکتیں منتخب نمائندوں کیساتھ کررہاہے، وقت آگیا ہے کہ نیب کے یہ کام ختم ہوں اور استفسار کیا کیا بائیومیٹرک کا عمل مکمل ہوگیا تھا، بیرسٹر گوہر نے بتایا درخواست کو ڈائری نمبر لگ چکا تھا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس سارے واقعے میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار سے پوچھنا چاہئے، ہم اس کیس میں اٹارنی جنرل کوطلب کرتے ہیں، باہر جو کچھ ہورہا ہے وہ فوری طور پر رک جانا چاہئے اور انصاف کےلئے ضروری ہےکہ عدالت میں تحفظ ملنا چاہئے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے آپ کا کیس یہ ہے کہ جب کوئی شخص عدالتی احاطےمیں داخل ہوتوگرفتارنہیں کیاجا سکتا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سیاسی لوگوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ سیاسی معاملات عدالتوں میں نہ لائیں، لیڈر شپ کو اپنے فالورز کو روکنا چاہئے۔

وکیل عمران خان کا کہنا تھا کہ نیب کے وارنٹ کے بارے میں ہمیں علم نہیں تھا، سیکرٹری داخلہ نے بھی بتایا کہ انہیں وارنٹ کے بارے میں علم نہیں، ہائیکورٹ میں 3 مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں جمع کرائیں، ان درخواستوں کی سماعت کے ساتھ جلد سماعت کی درخواست بھی دائر کی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملزم عدالت میں سرینڈرکردےتواحاطہ عدالت گرفتاریوں کیلئےآسان مقام بن جائیگا،ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاری کی سہولت کار بن جائیں گے، عدالتیں تو آزاد ہوتی ہیں۔

جسٹس عطا عمر بندیال کا کہنا تھا کہ آزاد عدلیہ کا مطلب ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنا ہے، ہم آج ہی حکم جاری کریں گے، عدالت سے گرفتاری کو کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گا۔

Comments

اہم ترین

راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز
راجہ محسن اعجاز اسلام آباد سے خارجہ اور سفارتی امور کی کوریج کرنے والے اے آر وائی نیوز کے خصوصی نمائندے ہیں

مزید خبریں