اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا عام انتخابات کے معاملے پر کہنا ہے کہ آئین میں 90 روز لکھا ہونے کے باوجود کیوں تکرار ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ میری توجہ تھی کہ زیر التوا مقدمات کی تعداد میں کمی کی جائے لیکن میرے آتے ساتھ ہی بار بار لوگ آئینی نکات پر حقوق مانگنے آتے تھے۔
عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے 23 ہزار کیسز نمٹائے جو کہ ایک ریکارڈ ہے جبکہ اس سے پہلے زیادہ کیسز نمٹانے کا ریکارڈ 18 ہزار تھا، گزشتہ 9 ماہ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 4 ہزار بڑھ گئی، گزشتہ سال 12 ججز کے ساتھ کام کرتے رہے اور 23 ہزار مقدمات کے فیصلے کیے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی مقدمات میں کچھ اقدار سامنے آئے جو ضروری ہیں، فیصلہ ایک جج کا نہیں بلکہ بینچ کا ہوتا ہے، ہمارا کام صرف آئینی نکات کو طے کرنا نہیں چاہتے ہیں کہ آئین و قانون کے مطابق نظام چلے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے فیصلوں کو سراہا بھی گیا، یہ فیصلے نہ ہو پاتے اگر ہمارے سامنے اتنی عالیشان وکالت نہ ہوتی، بار شاندار ہے ادارے کو مضبوط کرنے کیلیے مضبوط بار ضروری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تمام معزز چیف جسٹس صاحبان، جج صاحبان اور وکلا کا مشکور ہوں، ہم سب یہاں ایک وجہ سے اکٹھے ہیں آئین کے تحت ہماری ایک چھتری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا کام آئین کی پاسداری اور تحفظ کرنا ہے، ہائی کورٹ میں طاقتور اور مضبوط ججز بیٹھے ہیں۔