اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت میں ریمارکس دیئے توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ یہ تفریق کیسےہوئی ایک الزام پرکچھ لوگ عام کورٹس جبکہ کچھ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کیلئے جائیں، جس پر جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا وہ کہیں کچھ کاملٹری کورٹس میں ٹرائل،باقی گھر جائیں گےتوآپ کوپھرمسئلہ نہیں؟
وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اگر ایسی عدالت لےجایا جائے جہاں بنیادی حقوق دستیاب ہوں تواعتراض نہیں ، جس کے بعد درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ کےدلائل مکمل ہوگئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہو، کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملنی چاہیے ، استدعا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔
چیف جسٹس نے وکیل عزیربھنڈاری کو ہدایت کی آپ صرف قانون کی بات کریں ، سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں۔
دوران سماعت وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ افسران جوڈیشل اختیار کا استعمال کرینگے تو فئیر ٹرائل کا حق ملنے کا امکان نہیں، ہمارا قانون سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کاحق نہیں دیتا، فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل تفریقی ہے، درخواست گزار کا بیٹا مقدمہ میں ملزم ہے ، نہیں معلوم ملزم پر الزامات کیا ہیں؟
جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل سے استفسار کیا کہ 50میں سے 18افراد کا ٹرائل کیا جائےتو کیاکوئی اعتراض ہوگا؟ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسی عدالت بھیجا جائے جہاں بنیادی حقوق دستیاب ہوں تواعتراض نہیں ہوگا، افراد کی تعداد کےبجائے ملزمان کے نام معلوم ہونےچاہئیں، بہت سے افراد کے بارےمیں معلوم نہیں، فوجی عدالتوں میں عدالتی معاونین ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے مجھے توقع ہے کہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور زیر سماعت مقدمے تک فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہو گا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ کہا جا رہا ہے کہ ملزمان کو اہلخانہ سے بھی ملنے نہیں دیا جا رہا ؟ اٹارنی جنرل صاحب ہمیں کچھ یقین دہانیاں چاہئیں، ملٹری ٹرائلز کا کیا بنا ،کیا کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تحقیقات چل رہی ہیں، ممکن ہے تحقیقات کے دوران 102 میں سےکئی افراد کو چھوڑ دیا جائے، جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا اٹارنی جنرل صاحب پک اینڈ چوز کے پیچھے کیاوجوہات ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جن افراد نےممنوعہ مقامات پرحملہ نہیں کیا ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا آپ یہ بیان موکل کے ہدایات پر دے رہے ہیں یا آپ کا ذاتی بیان ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں کوئی بھی بات عدالت میں ہدایات کے بغیر نہیں کرتا، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ آپ بغیر اعداد و شمار کے بات کررہے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امید ہے دوران سماعت کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا، جو افراد گرفتار کیے گئے ان کی مکمل تفصیلات بھی فراہم کریں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے فوجی عدالت میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کل صبح ساڑھے9بجےتک ملتوی کردی۔