ہندوستان کی سرزمین پر سُروں کا جادو صدیوں سے پھونکا جارہا ہے۔ سریلی آوازیں اور آلاتِ موسیقی لوگوں کی سماعتوں میں رس گھول رہی ہیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، مگر زمانے کے ساتھ ساز اور گائیکی کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔
صدیوں پہلے ہندوستان کے گویّے جو اپنے فن میں طاق اور اپنے انداز میں یگانہ تھے، ان کا نام آج بھی لیا جاتا ہے۔ یہ شاہانِ وقت کے دربار سے بھی منسلک رہے اور فنِ موسیقی میں بے مثال ہوئے۔ اکبر کے عہد میں سوامی ہری داس اور تان سین جیسا درخشاں ستارہ موجود تھا۔ بعد میں کئی اور نام ہو چلے اور پھر بادشاہت کا زمانہ ختم ہوا۔ ہندوستانی ریاستوں پر سلطان، راجہ اور نوابوں نے حکم رانی کی جو باذوق اور بڑے قدر دان تھے۔ اپنے عہد کے گانے والوں کو عزت اور احترام بھی دیا اور ان پر زر و جواہر بھی نچھاور کیے۔
یہ ایک ایسے ہی گویّے تان رس کا تذکرہ ہے جو مرزا احمد سلیم شاہ عرش تیموری کے قلم سے نکلا ہے۔ قارئین کی دل چسپی کے لیے ان کا مضمون پیشِ خدمت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
اس سے پہلے کہ تان رسؔ خاں کے حالات بیان کروں، بہتر ہے کہ ان واقعات میں جو بیان کیے گئے ہیں، کتنی واقعیت ہے اور اس کے واقعہ ہونے کے ثبوت کیا ہیں، بیان کر دوں۔
یہ حالات جو بیان کیے گئے ہیں، خاندانی بزرگوں اور ان شہزادوں سے منقول ہیں جو زمانۂ غدر میں بیاہے تیاہے تھے۔ اس لیے ان واقعات کے صحیح ہونے میں ذرا بھی شبہ نہیں۔
تان رس خاں
نام قطبؔ بخش تھا اور بادشاہ عالم ثانی کے انتقال کے وقت اس کی عمر پانچ سال کی تھی۔ یہ بہت فریس اور خوش قسمت تھا۔ چند ہی دنوں میں اپنے فنِ آبائی میں معقول ترقی کی۔ قطبؔ بخش ان لوگوں کی نسل سے تھا جو محمد شاہ باد شاہ کے دربار میں بہت بڑھے چڑھے تھے۔ جب قطب بخش کی استادی کی شہرت ہوئی تو بہادر شاہ بادشاہ دہلی کے دربار میں پیش ہوا۔ اس زمانے میں ملازمین شاہی کی تنخواہیں تو بہت کم ہوتی تھیں لیکن انعام و اکرام بہت ملتا تھا۔
گو اس کی تنخواہ بھی بہت کم تھی لیکن میوے اور یخنی کا خرچ دربار شاہی سے بطور یومیہ عطا ہوتا تھا۔ یخنی نے تان رسؔ خاں کے گلے کو لوچ دار بنانے میں بہت مدد دی۔ کیونکہ گوشت کی یخنی اور طاقت بخش میوے گلے کے پٹھوں کو مضبوط اور لچک دار بناتے ہیں۔
بہرحال قطبؔ بخش نے گانے میں بہت ترقی حاصل کی اور تان رسؔ خاں کا خطاب حاصل کیا۔
تان رسؔ خاں بہادر شاہ بادشاہ کی گائنوں کو تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ پیاریؔ بائی، چندراؔبائی، مصاحبؔ بائی، سلطانؔ بائی وغیرہ کل تعداد میں اٹھارہ تھیں اور ہر ایک ان میں سے لاجواب گانے والی تھی۔
قلعے سے نکالا
جب تان رسؔ خاں کا رسوخ بڑھ گیا اور بادشاہ میں زیادہ پیش ہونے لگے تو زمانہ گردش کا آیا یعنی ایک گائن سے جس کا نام پیاریؔ تھا، تعلقات ہوگئے۔ آخر کار بھانڈا پھوٹ گیا اور قلعے سے نکالا ملا۔ تان رسؔ خاں بہت پریشان ہوئے کیونکہ قلعہ سے نکالے ہوئے آدمی کو کون منہ لگاتا۔ ہر ایک نے آنکھیں پھیر لیں اور لوگوں کی نظروں میں ان کی عزت نہ رہی۔
قدرِ کمال
اب تان رسؔ خاں اپنی قسمت پر شاکر رہ کر بیٹھ گئے تھے۔ بہت افسردہ تھے کہ حکم شاہی آیا کہ ’’خطاب، تنخواہ اور معاش بدستور بحال و جاری ہے لیکن آئندہ کے لیے دربار بند اور قلعہ میں آنے کی اجازت نہیں۔‘‘
یہ بہادر شاہ بادشاہ نے از راہِ قدرِ کمال کیا کہ تنخواہ اور خطاب کو بحال رکھا اور شہر میں رہنے کی اجازت دی۔ ان اٹھارہ گائنوں کو بھی بادشاہ نے نکال دیا اور وہ مختلف شہزادوں کی سرکاروں میں نوکر ہوگئیں۔
غدر
جب سلطنت دہلی برباد ہوئی تو تان رسؔ خاں نے ریاست الور، جے پور اور جودھ پور میں ملازمتیں کیں۔ اور ہزاروں روپے کے انعام و اکرام بھی پائے۔ حیدرآباد دکن کی شاہانہ داد و دہش کا شہرہ سن کر حیدرآباد آئے اور اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خاں مرحوم و مغفور کی ملازمت اختیار کرکے بہت عروج حاصل کیا۔ تان رسؔ خاں کے دو فرزند تھے۔ غلامؔ غوث خاں، امراؤؔ خاں۔
حاضر جوابی
ایک دن تان رس خاں نواب میر محبوب علی خاں کے حضور میں حاضر تھے۔ اعلیٰ حضرت ایک پلنگڑی پر لیٹے ہوئے تھے اور تان رسؔ خاں یہ ٹھمری گا رہے تھے،
’’رات بالم تم ہم سے لڑے تھے۔۔۔‘‘ راگ پورے جوبن پر تھا اور بڈھے تان رسؔ خاں کی آواز اپنے استادانہ کمالات کے جوہر دکھاتی ہوئی دل میں اتر رہی تھی، در و دیوار سے اسی ٹھمری کی آواز بازگشت سنائی دیتی تھی۔ ایسا سماں بندھا کہ حضور بے تاب ہوگئے اور فرمایا،
’’واہ تان رسؔ خاں واہ۔۔۔‘‘ اس فقرے کے سنتے ہی تان رسؔ خاں لپک کر قریب پہنچا اور چٹ چٹ بلائیں لے لیں۔
یہ حرکت حضور کو بہت بری معلوم ہوئی۔ آپ نے گرم نگاہوں سے تان رسؔ خاں کو بھی دیکھا اور مڑ کر حاضرین کی طرف بھی نگاہ ڈالی۔ سب لوگ سناٹے میں آگئے اور انتظار کرنے لگے کہ دیکھو اب کیا ہوتا ہے۔ بڈھا تان رسؔ خاں گرم و سرد روزگار اور امیروں اور بادشاہوں کے مزاج سے واقف تھا۔ فوراً بھانپ لیا کہ کیا معاملہ ہے اور جب قریب تھا کہ خرابی اور بے عزتی کے ساتھ نکالا جائے، حواس کو جمع کرکے کہا، ’’قربان جاؤں! مدّت سے آرزو تھی کہ کسی مسلمان بادشاہ کی بلائیں ہوں، ان ہاتھوں نے یا تو حضور بہادر شاہ شاہ کی بلائیں لیں یا آج آپ کی۔‘‘
یہ سن کر میر محبوب علی خاں بہادر مرحوم مسکرا دیے اور بات رفع دفع ہوگئی۔
انتقال
تان رسؔ خاں کا انتقال حیدر آباد دکن میں ہوا اور شاہ خاموش صاحب کی درگاہ کے قرب و جوار میں دفن ہوئے ہیں۔ اس طرح دلّی کے بہترین اور مشہور گویے کا انجام ہوا۔ انتقال کے بعد ان کی اولاد نے چاہا کہ لاش کو چند روز کے لیے حیدرآباد سپرد خاک کر کے پھر دلّی لے جائیں لیکن اعلیٰ حضرت میر محبوب علی خاں بہادر نے ان کے فرزندوں کو بلوایا اور فرمایا، ’’کیا خدا وہیں ہے یہاں نہیں ہے؟‘‘
اس تہدید کی بنا پر تان رسؔ خاں ہمیشہ کے لیے حیدر آباد دکن کی سرزمین میں آرام گزیں ہوگئے۔ دلّی (قلب ہندوستان) کا آفتاب حیدرآباد میں غروب ہوگیا۔ لیکن اپنی آتشیں کرنوں کا نشان آسمان کمال پر چھوڑ گیا۔