جمعرات, جون 19, 2025
اشتہار

تان رس اور میرزا بابر بہادر کے شکاری کتّے

اشتہار

حیرت انگیز

ہندوستان کی سرزمین پر سُروں کی بادشاہت اور ساز و آواز کا صدیوں سے راج رہا ہے۔ یہاں‌ بیسویں صدی کے وسط تک کلاسیکی گائیکی کے میدان میں کئی سریلے اور باکمال ہو گزرے ہیں۔ یہ موسیقار اور گویّے سلاطینِ وقت، نوابوں اور امراء کے درباروں‌ سے منسلک رہے اور عوام میں‌ بھی مقبول تھے۔ انہی میں ایک نام تان رَس کا بھی ہے جو ایک مشہور ہندوستانی گویّے تھے۔

اپنے فن میں‌ طاق اور اپنے انداز میں‌ یگانہ تان رس کا اصل نام قطب بخش تھا، اور تان رس ان کا شاہی خطاب۔ مغل دور کے اس گویّے کا یہ واقعہ ان کے فن و انداز سے متعلق نہیں بلکہ شاہزادوں اور شاہی خاندان کی اہم شخصیات کے ہنسی ٹھٹھے اور اپنے وظیفہ خواروں‌ سے چھیڑ چھاڑ کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔ یہ دل چسپ واقعہ مرزا احمد سلیم شاہ عرش تیموری نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

تان رسؔ خاں بہادر شاہ بادشاہ کی گائنوں کو تعلیم دیتے تھے۔ چنانچہ پیاریؔ بائی، چندراؔ بائی، مصاحبؔ بائی، سلطانؔ بائی وغیرہ کل تعداد میں اٹھارہ تھیں اور ہر ایک ان میں سے لاجواب گانے والی تھی۔

اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں قلعے میں دیوان عام کے پیچھے زنانہ محل واقع تھا، جس کو بیٹھک کہتے تھے اس کے قریب ایک بڑا حوض تھا جس پر سنگِ سرخ کا قد آدم کٹہرا لگا ہوا تھا۔

حوض کے ایک طرف کوٹھے اور دوسری طرف میرزا بابر فرزند اکبر شاہ ثانی کی خوبصورت کوٹھی بنی ہوئی تھی اور وہاں سے ذرا ہٹ کر حضرت ابو ظفر ولی عہد بہادر کا محل تھا۔ وہاں تان رسؔ خاں بیٹھے گائنوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ جب تعلیم ختم کر چکے تو چلنے کا ارادہ کیا۔ دریچے میں سے دیکھا کہ شاہزادۂ آفاق میرزا بابر بہادر حوض پر کھڑے ہیں اور دو بڑے کتّے جو صورت شکل اور قد و قامت میں مثل شیر کے ہیں، ساتھ ہیں۔

تان رسؔ خاں ان کتوں کے خوف سے بڑی دیر تک باہر نہ نکلے لیکن جب بہت دیر ہوگئی تو مجبوراً محل سے باہر آئے اور اس زمانے کے قاعدے کے مطابق منہ پر کپڑا ڈال کر میرزا بابر بہادر سے چھپ کے نکلے مگر صاحبِ عالم عالمیاں کی نگاہ پڑگئی اور للکار کر کہا، ’’کیوں بے تینو!‘‘

انہوں نے فوراً عرض کیا، ’’غریب پرور!‘‘

صاحبِ عالم نے فرمایا، ’’کیوں صاحب! اب تو تم الگ الگ جانے لگے۔‘‘

انہوں نے عرض کیا، ’’حضور! فدوی کی کیا مجال، خانہ زاد نے دیکھا نہیں تھا۔‘‘

فرمایا، ’’ہاں… اچھا!‘‘

یہ کہہ کر ایک کتّے کو چھچکارا اور دوسرے کو بھی للکارا۔ بس کیا تھا گویا کتّوں کے بدن میں بجلی کوند گئی۔ نہایت اضطراب کے ساتھ ادھر اُدھر پھرنے لگے۔ کتّے آدمی کی باؤلی کھائے ہوئے نہ تھے، ورنہ اس دن موت تو آنکھوں میں پھر ہی گئی تھی۔ آخر کار تان رسؔ خاں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی، جب جا کر کہیں چھٹکارا ملا اور فرمایا، ’’اچھا جاؤ آئندہ خیال رکھنا۔‘‘

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں