اتوار, مارچ 23, 2025
اشتہار

30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں؟

اشتہار

حیرت انگیز

فرید الحق حقی

آپ حیران رہ جائیں گے کہ 30 کلو کی خطرناک شکاری شارک مچھلی محض 30 گرام کی ننھی سی مچھلی کی محتاج کیوں ہوتی ہے؟ یہ صفائی کارکن ’’بلو اسٹریک کلینر وراس‘‘ مچھلی کی حیرت انگیز داستان ہے۔

ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل صفائی ستھرائی سے مشروط ہے، انسانوں کی طرح جانور بھی خود کو صاف ستھرا رکھتے ہیں اور حفظان صحت کے لیے ہر نوع مختلف اور دل چسپ طریقے اختیار کرتا ہے، ان کے یہ طریقہ ہائے کار ان کے ماحول اور ارتقائی ضروریات کی عکاسی کرتے ہیں، جو ان کی صحت، سماجی تعاملات اور بقا کو برقرار رکھتے ہیں۔

سمندری جان دار بھی اپنی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتے ہیں، کچھ اپنی صفائی خود کرتے ہیں اور کچھ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں۔

کلینر فش

انڈوـ پیسیفک خطے میں رہنے والی ایک مچھلی جس کا نام Bluestreak Cleaner Wrasse ہے، ایک صفائی کارکن ہے جو دوسری مچھلیوں کی صفائی کرتی ہے اور معاوضے میں اسے کھانا ملتا ہے۔ اس کا سائنٹفک نام Labroides dimidiatus ہے، جب کہ اس تعلق Labridae فیملی سے ہے۔

مسکن


اس کا مسکن ہند-بحرالکاہل، خلیج فارس، بحیرہ احمر، مشرقی افریقہ سے لائن، مارکیساس اور ڈوکی جزائر، شمال سے جنوبی جاپان، جنوب میں لارڈ ہوے، راپا جزائر اور گریٹ بیریئر ریف (آسٹریلیا ) تک ہے۔

رنگ، عمر، وزن اور لمبائی


یہ لمبائی میں 5 انچ تک بڑھ سکتی ہے، جب کہ وزن میں 15 سے 30 گرام تک ہو سکتی ہے، عمر میں یہ 4 سے 6 سال تک جی سکتی ہے۔ اس کا جسم پتلا اور لمبا ہوتا ہے، رنگ نیلا اور سفید، پیٹ کے اوپری سمت منہ سے لے کر دم تک ایک کالی پٹی ہوتی ہے اور تھوتھنی نوک دار ہوتی ہے، جب کہ پیٹ سفید سے پیلا ہوتا ہے۔

یہ مرجان کی چٹانوں (کورل ریف) میں رہتی ہے، چٹانوں میں یہ گروپ کی صورت میں بھی رہتی ہے اور حرموں میں بھی۔ ایک نر کے حرم میں کئی مادائیں ہوتی ہیں۔ نر کے مرنے کے بعد ماداؤں میں سے سب سے بڑی مادہ جنس تبدیل کر کے نر بن جاتا ہے اور پھر وہ اسی حرم کی قیادت کرتا ہے، جنس کی اس تبدیلی میں 14 سے 18 دن لگتے ہیں۔ یہ اپنا جنس تبدیل کر سکتی ہے کیوں کہ یہ protogynous hermaphrodite ہوتی ہیں۔ پروٹائجینس ہرمافروڈائٹ وہ جان دار ہوتے ہیں جو اپنی زندگی ایک مادہ کے طور پر شروع کرتے ہیں اور بعد میں جنس تبدیل کر کے نر بن سکتے ہیں۔

کلیننگ اسٹیشن (صفائی مرکز)


چٹانوں میں یہ جہاں مچھلیوں کی صفائی کرتی ہیں، ان جگہوں کو کلیننگ اسٹیشن کہا جاتا ہے، مچھلیاں صفائی کے لیے کلیننگ اسٹیشن کے قریب آتی ہیں تو یہ اپنے مسکن سے نکل کر ان کے سامنے اپنی دستیابی کےلیے ایک مخصوص ڈانس کرنے لگتی ہے۔

یہ تیزی سے آگے پیچھے ہوتے ہوئے اپنے بدن کے پچھلے حصے کو اٹھا اٹھا کر پھڑپھڑانے لگتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ ایک ہی سمت، یعنی اوپر کی سمت ٹھمکے لگا رہی ہے۔ ان کا نیلا رنگ اور کالی پٹی ایک یونی فارم کی طرح کام کرتی ہے اور صفائی کے لیے آنے والی مچھلی اسے اسی رنگوں سے شناخت کرتی ہے۔ ڈانس سے صفائی کے لیے آنے والی مچھلی کو پتا چل جاتا ہے کہ بلوسٹریک صفائی کے لیے تیار ہے۔

مچھلی کلیننگ اسٹیشن پر آ کر منہ اور گلپھڑے کھول کر ساکت ہو جاتی ہے اور بلوسٹریک اس کے بدن سے ایکٹو پیراسائٹس، خراب یا مردہ ٹشوز اور دیگر گندگی نوچ کر کھانے لگتی ہے۔ یہ ان کے گلپھڑے اور منہ کے اندر تک گھس کر صفائی کرتی ہے۔ رش کے وقت مچھلیاں لائن لگا کر اپنی باریوں کا انتظار کرتی ہیں۔

کلیننگ اسٹیشنز پر مختلف انواع کی مچھلیاں ہوتی ہیں اور یہ منظر بہت ہی پیارا اور حیران کر دینے والا ہوتا ہے، جو کلیننگ اسٹیشن پر مختلف انواع میں باہمی تعلق کی شان دار مثال پیش کرتا ہے۔ ان کلیننگ اسٹیشنوں پر خطرناک چیر پھاڑ والی شکاری مچھلیاں جیسے کہ شارک، مورے ایل، بیرا کوڈا اور گروپرز بھی آتے ہیں اور بلو سٹریک بلا خوف انھیں اپنی خدمات فراہم کرتی ہے۔

ماہرین کی تحقیق


سوئٹزرلینڈ اور پرتگال کی یونیورسٹیوں کی جانب سے مصر کے ’’راس محمد نیشنل پارک‘‘ میں بلو سٹریک راس پر تحقیق کی گئی تھی، جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ صفائی سے مچھلیوں کی صحت پر کیا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تحقیق کی شروعات انھوں نے مرجان کی چٹانوں میں رہنے والی مچھلیوں کے 2 گروپ بنا کر کی۔ ایک گروپ کو بلو سٹریک تک رسائی تھی جب کہ دوسرے گروپ کو نہیں تھی۔

نتائج میں پایا گیا کہ کلیننگ اسٹیشنز تک جس گروپ کی رسائی نہیں تھی ان کے مقابلے رسائی والی مچھلیوں کی صحت بہتر تھی، ماہرین حیاتیات نے یہ بھی پایا کہ کلیننگ اسٹیشنز تک رسائی والی مچھلیوں میں بیماریوں کے خلاف مدافعت کرنی والی مخصوص اینٹی باڈیز کی نمایاں طور پر زیادہ پیداوار پائی گئی تھی۔

اینٹی باڈیز وہ پروٹین ہوتے ہیں جو جسم کے مدافعتی نظام کے ذریعے باہری حملہ آوروں جیسے بیکٹیریا، وائرس اور زہریلے مادوں سے لڑنے کا کام کرتے ہیں، اور جسم کے مدافعتی نظام ( امیون سسٹم) کو طاقت دیتے ہیں۔ طاقت ور امیون سسٹم تولیدی عمل (انڈوں اور بچوں کی پیداوار) کو بڑھاتا ہے۔

اس کے علاوہ ٹیم نے یہ بھی پایا کہ کلیننگ اسٹیشنز تک رسائی والے گروپ کے مقابلے دوسرے گروپ میں ’کورٹیسول‘ کا لیول زیادہ تھا۔

کورٹیسول ایک ہارمون ہے اسے ’سٹریس ہارمون‘ بھی کہتے ہیں، یہ جسم میں بڑی بڑی اور خطرناک دائمی امراض کی پہلی اسٹیج ’سوزش‘ (انفلامیشن) کو کم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں شوگر، بلڈ پریشر، کینسر، ٹینشن، ڈپریشن، پٹھوں کی کمزوری، دل اور ہڈیوں کے امراض سے بچا جا سکتا ہے اور یہ بیماریوں کے خلاف لڑنے والے بدن کے ’امیون سسٹم‘ کو بھی طاقت دیتا ہے۔ اس کی بلند سطح مندرجہ بالا بیماریوں کو جنم دیتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عمل تولید ( انڈوں یا بچوں کی پیداوار) کو بھی کم کرتی ہے۔

پاکستان میں موجودگی


پاکستانی پانیوں میں اس کی موجودگی کی تصدیق کرنے والی کوئی وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ سائنسی ریکارڈ یا سروے دستیاب نہیں ہے، حالاں کہ یہ ہند بحر الکاہل میں رہتی ہے جہاں پاکستان میں پائی جانی والی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ اصل میں یہ صحت مند مرجان کی چٹانوں کے ساتھ صاف اور گرم پانیوں میں پروان چڑھتی ہے۔ بحیرہ عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ساحلی پٹی میں مرجان کی چٹانوں کے حالات ناقص ہیں، اور کم ہے اور پانی بھی بہت صاف ستھرا نہیں ہے۔

گھروں کا سارا گندا پانی، گندے نالوں اور فیکٹریوں کا کیمیکل ملا زہریلا پانی فلٹر ہوئے بغیر سمندر میں جا کر اسے آلودہ کر رہا ہے، جس سے ایک تو ہمارے کورل ریف (مرجان کی چٹانیں) جو سمندری حیات کے لیے انتہائی اہم ہیں، برباد ہو رہی ہیں، دوسرا فی زمانہ واحد قدرتی غیر ملاوٹی صحت مند غذا، جو سمندری غذا کی صورت میں ہمیں میسر ہے، اسے آلودہ اور غیر معیاری بنا رہا ہے۔

یہ دو طرفہ الودگی یعنی کہ سمندر میں گندگی پھینکنے کی اور اسی گندگی کی وجہ سے بلو سٹریک اور اس جیسی صفائی والی مچھلیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے، مچھلیوں کی صحت بھی بہتر نہیں ہے، اس لیے انھیں کھا کر ہمیں ویسے فوائد حاصل نہیں ہوتے ہوں گے جو ہونے چاہئیں۔

بلوسٹریک مغربی بحر ہند کے کچھ حصوں میں پائی جاتی ہے جیسے کہ عمان، یمن، اور مغربی بھارت۔ جیسا کہ تحقیقات سے پتا چلتا ہے بلو اسٹریک کا سمندری ماحولیاتی کردار میں کتنا اہم مقام ہے، کیوں کہ یہ مچھلیوں کی صفائی کر کے ان میں پھیلنی والی بیماریوں کو کم کرتی ہے اور مچھلیوں کی حفظان صحت کو بہتر بنا کر ہمیں صحت بخش غذا تو دیتی ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ مچھلیوں میں ان کی اچھی صحت کے ذریعے ان کی بقا اور تولیدی عمل کو بھی تقویت دیتی ہے۔

اچھی صحت اور ایک صحت مند معاشرے کے لیے ہم انسانوں کو اس ننھی سی جان سے ہی سبق لے کر خود کو آس پاس کے ماحول کو اور سمندر کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے، خاص طور پر متعلقہ اداروں کو، کہ اب خواب غفلت سے جاگ کر اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور پوری ایمان داری سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے سمندر کی صفائی کے لیے کڑے سے کڑے اقدامات اٹھائیں، کہ سمندر جو ہمیں اتنا کچھ دے رہا ہے اب ہم بھی اسے صاف ستھرا رکھ کر اس کا احسان اتاریں۔ اس میں ہماری ہی بقا ہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں