کچھ لوگ رنگوں کے اندھے یعنی کلر بلائنڈ ہوتے ہیں وہ رنگ نہیں دیکھ سکتے بلکہ کچھ خاص قسم کے رنگوں میں تمیز سے بھی عاری ہوتے ہیں۔
جیسے سرخ و سبز یا پیلے اور نیلے رنگ کے درمیان فرق نہیں کر پاتے جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی جن کے لئے دنیا صرف بلیک اینڈ وائٹ ہے تاہم ایسے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر امراض چشم ڈاکٹر محمد حمزہ نے رنگوں سے عاری اس کیفیت کا اصل نام اور اس کے علاج کا طریقہ بیان کیا۔
انہوں نے بتایا کہ دراصل اس بیماری کا نام کلر بلائنڈنیس نہیں بلکہ کلرڈیفیشنسی ہے مریض میں اس قسم کی علامات موروثی بھی ہوسکتی ہیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مردوں میں اس کی شرح عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے، پیدائشی اور جنیاتی ہونے کی وجہ سے اس کا کوئی خاص علاج بھی ممکن نہیں، ایسے افراد کو سرخ اور سبز رنگ کی چیزیں پیلی یا زرد نظر آتی ہیں۔
ڈاکٹر محمد حمزہ نے بتایا کہ ایک عام بچے کے اندر چار سال کی عمر سے رنگوں میں فرق اور ان کی پہچان کرنے کی صلاحیت پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
جنیاتی اور موروثی وجوہات کے علاوہ چند ادویات بھی اس مرض کی وجہ بن سکتی ہیں، اس کے علاوہ عمر کے ساتھ آنکھ کے پردے کی کمزوری ”میکولر ڈی جنریشن“ ، ذیابیطس اور وٹامن اے کی کمی کے باعث بھی رنگوں میں امتزاج کم کر دیتا ہے۔۔
ان کا کہنا تھا کہ نومولود بچے یا بہت چھوٹے بچوں کو زور زور سے ہلانا یا اچھالنا ان کے آنکھ کے پردے پر اثر ڈالتا ہے، حادثہ یا چوٹ بھی اس حصے کو نقصان پہنچاتا ہے، الٹرا وائلٹ شعاعیں بھی اس کی وجہ بن سکتی ہیں۔