کراچی: صوبائی دارالحکومت کراچی کے مسائل کے حل کے لیے ہونے والی کانفرنس کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ جب وزیر داخلہ تھا تو کے 4 کے روٹ بنانے والے کا پوچھا تھا، جب پروجیکٹ کی قیمت آئی تو میں وزیر اعلیٰ سندھ بن گیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں شہر کے مسائل کے حل کے لیے کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور میئر کراچی وسیم اختر سمیت مختلف جماعتوں کے نمائندوں اور اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔
وزیر اعلیٰ سندھ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب وزیر داخلہ تھا تو کے 4 کے روٹ بنانے والے کا پوچھا تھا، اجلاس میں سب نے کہا تھا مشکل روٹ کا انتخاب کیا گیا ہے۔ مجھے کہا گیا آپ اس پر اعتراض نہ کریں، پروجیکٹ میں تاخیر ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ایف ڈبلیو او کو روٹ 2 سال میں مکمل کرنے کی درخواست کی تھی، روٹ 25 بلین روپے میں مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ ایف ڈبلیو او نے کہا کہ یہ پروجیکٹ 42 بلین روپے کا ہے۔ اگر نظر ثانی میں جاتے تو مزید تاخیر ہوتی۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے منصوبے کو 2 حصوں ایک سول اور دوسرا ٹیکنیکل میں تقسیم کیا، جب اس کی قیمت آگئی تو میں وزیر اعلیٰ سندھ بن گیا تھا، پتہ چلا کہ پروجیکٹ پر 31 بلین مزید خرچ ہوگا تو کابینہ نےخود کرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ پروجیکٹ پر سندھ حکومت نے 21 بلین روپے خود دینے کا وعدہ کیا۔ عام انتخابات کے بعد جیسے ہم واپس آئے تو کچھ مسائل ہوئے۔ ہمیں ماہرین نے کہا کہ 12.9 بلین روپے کی جو لاگت کی ہے وہ ٹھیک نہیں۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہم نے 3 پمپ رکھے تھے، آپ نے لاگت کم کرنے کے لیے ایک پمپ کم کردیا، فیز ٹو کے لیے نیا چینل بنانا ہوگا تو کس طرح بلاسٹنگ کریں گے، ہم نے نیسپاک کو تھرڈ پارٹی ڈیزائن ویریفکیشن کے لیے کام دیا۔
کانفرنس میں سابق میئر کراچی مصطفیٰ کمال نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پانی پر کوئی سیاست نہیں ہونی چاہیئے، واٹر بورڈ سندھ حکومت کو ہینڈل نہیں کرنا چاہیئے، کے 4 کا جب تصور کیا گیا تب کے 3 مکمل ہو رہا تھا، اگلے 50 سال کے لیے کے 4 کی ضرورت تھی۔
انہوں نے کہا کہ 1000 فٹ کوریڈور کراچی کے پانی کی ضرورت کے لیے تھا، 130 کلو میٹر کے 4 اسٹرپ ہیں اس میں پمپنگ سب سے مہنگی چیز ہے۔ سنہ 2014 میں 50 فیصد فنانشل شیئرنگ پر اتفاق ہوا، جو بھی نئی سڑک تعمیر ہو اس کو پانی کی لائن پہلے سے دی جائے۔