پیر, اکتوبر 21, 2024
اشتہار

براہ راست : آئینی ترمیم کی منظوری : قومی اسمبلی کا اہم اجلاس جاری

اشتہار

حیرت انگیز

26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے منظوری کیلئے اجلاس جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا۔

وزیراعظم شہباز شریف، نوازشریف، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زرداری، بیرسٹر گوہر اور دیگر سیاسی رہنما ایوان میں موجود ہیں۔

- Advertisement -

قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم کے لیے224ووٹ درکار ہیں جبکہ حکومت اور جے یو آئی کے ووٹ221ہیں حکومت کو اپوزیشن سے تین ووٹ ملنے کا یقین ہے۔

قومی اسمبلی میں وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے 26ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا، ان کا کہنا تھا کہ آج تاریخ ساز دن ہے، میثاق جمہوریت کا ادھورا ایجنڈا آگے بڑھایا جارہا ہے، آئینی بینچز بنائےجارہے ہیں، چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ بدلا جارہا ہے۔ ،

اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میثاق جمہوریت پر شہید بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے۔

اعظم نذیر تارڑ نے اپنے خطاب میں کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم وقت کی اہم ضرورت ہے، 12رکنی پارلیمانی کمیٹی بنے گی جس میں اپوزیشن اور حکومتی لوگ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب چیف جسٹس آف پاکستان کی معیاد 3 سال ہوگی، ماضی میں ہم نے دیکھا کہ چیف جسٹس کی معیاد 6 سے 7سال تھی۔

چیف جسٹس پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہوں گے، سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ کے دو سینئرجج ممبر ہونگے، جوڈیشل کونسل میں 2ممبر ہائیکورٹ کےچیف جسٹس ہونگے۔

چیئرمین پی پی بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس پارلیمان اور آئین کیلئے کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدالت ہے۔ کالے سانپ نے ایک نہیں بلکہ کئی وزرائے اعظم کو فارغ کرایا۔ وردی میں صدر کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی۔

ہم نے اٹھاون ٹوبی ختم کیا تو عدالت نے صادق اور امین کے ذریعے وہ اختیار اپنے پاس رکھا۔ کالے کوٹ والے کو وزیراعظم کو ہٹانے کی اجازت ہے لیکن اس ایوان کے پاس اختیار نہیں۔

قبل ازیں سینیٹ میں چھبیسویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری لی گئی۔ حکومت نے دو تہائی اکثریت سے چھبیسویں آئینی ترمیم منظورکرالی۔ پہلی شق میں چار ووٹ مخالفت میں آئے۔

بقیہ تمام شقیں65 ووٹوں کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کی گئیں، آئینی ترمیم منظوری کے وقت ایوان میں ن لیگ پی پی،جے یو آئی اور اے این پی کے ارکان موجود رہے۔

بی این پی کے دو سینیٹرز بھی اجلاس میں آئے۔ بیرسٹرعلی ظفر ،عون عباس، حامد خان اور راجہ ناصر عباس نے بل کی مخالفت کی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں