اسلام آباد: عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم پر جہاں حکومتی اراکین نے متضاد بیان دیے ہیں وہاں دو اہم سیاسی شخصیات مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کا رد عمل بھی سامنے آ گیا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے پارلیمنٹ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ممکنہ آئینی ترامیم پر مؤقف دیا کہ ’’ہماری تجویز کے مطابق آئینی ترمیم آئی تو پھر دیکھیں گے۔‘‘
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ترمیم کی باتیں تو ہو رہی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے، انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کمیٹی کرتی ہے کہ ترمیم کرنی ہے یا نہیں، جب کہ پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن بھی موجود ہے۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع انفرادی معاملہ ہے۔
یاد رہے کہ جمعرات کو جے یو آئی نے آئینی ترامیم میں حکومت کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، ذرائع کے مطابق جے یو آئی نے اپنے سینیٹرز کو ممکنہ ترامیم پر بلا اجازت ووٹنگ سے روک دیا تھا، پارلیمانی لیڈر سینیٹر عطاالرحمان نے ساتھی سینیٹرز کو پالیسی خط بھی لکھا کہ سینیٹرز تحریری اجازت کے بغیر کسی آئینی ترمیم پر ووٹنگ نہیں کریں گے، یہ خط سینیٹر کامران مرتضیٰ، مولانا عبدالواسع، عبدالشکور خان، اور احمد خان کو بھیجا گیا تھا۔
عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم، دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی حمایت درکار
ادھر عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم کے بل پر حکومتی ارکان کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری کا کہنا ہے کہ آج پارلیمنٹ میں کوئی بل نہیں آ رہا ہے، آئینی ترمیم سے متعلق بل پر ابھی کوئی حتمی چیز نہیں ہوئی ہے، جب کہ مشیر وزارت قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا ہے کہ ان کے نمبرز پورے ہیں، اور حکومت آج ججوں سے متعلق آئینی ترمیم لا رہی ہے، آئینی ترمیم کسی شخص یا فرد واحد کے لیے نہیں، اس کا اطلاق تمام ججز کی عمر پر ہوگا۔