ہفتہ, اکتوبر 12, 2024
اشتہار

’ایسا طریقہ لائیں جس سے کیسز نمٹیں، نیا جوڈیشل سسٹم بنانے کی ضرورت نہیں‘

اشتہار

حیرت انگیز

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ حکومت 176 کیسز کے لیے نئی عدالت بنارہی ہے جبکہ سپریم کورٹ پر کیسز کا بوجھ بدستور رہے گا۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ 2006 کی صورتحال مختلف تھی اس وقت پرویز مشرف کا ایک آئینی پیکیج چل رہا تھا، سپریم کورٹ میں اس وقت 65 ہزار سے زائد کیسز التوا کا شکار ہیں، زیر التوا کیسز میں 148 آئینی اور 28 سوموٹو کیسز ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا طریقہ نکالیں جس سے کیسز نمٹیں، نیا جوڈیشل سسٹم بنانے کی ضرورت نہیں۔

- Advertisement -

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ حکومت نے آج پہلی مرتبہ ڈرافٹ شیئر کیا جس کو ابھی تفصیلی طور پر نہیں دیکھا، درمیان میں چھٹیاں آرہی ہیں اس لیے بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کے لیے وقت مانگا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ امید ہے آئینی ترامیم سے متعلق آئندہ مشاورت 17 اکتوبر کے بعد ہوگی، وفاقی آئینی عدالت جس طرح حکومت بنانے جارہی ہے وہ درست نہیں، مولانا فضل الرحمان نے بھی اس کے قیام کے طریقہ کار پر اعتراض کیا۔

آئینی عدالت کیسے تشکیل دی جائے گی حکومت نے اس کا ڈھانچہ تیار کیا ہے، مجوزہ ترمیم کے مطابق آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہوگی جس میں چیف جسٹس، دو سینئر ترین ججز رکن ہوں گے اور ایک ریٹائر جج نئی عدالت کا چیف جسٹس نامزد کرے گا، وزیر قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ بھی شامل ہوگا۔

مجوزہ ترمیم کے مطابق دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن سے 2، 2 ارکان لیے جائیں گے، صوبائی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیر قانون اور بار کونسل نمائندے پر مشتمل ہوگی۔

جج کی اہلیت رکھنے والے شخص کے لیے نام پر مشاورت کے بعد وزیراعظم معاملہ صدر کو بھیجیں گے، وفاقی آئینی عدالت کے باقی ممبران کا تقرر صدر، چیف جسٹس کی مشاورت سے کریں گے، چیف جسٹس اور ججز کے نام پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے وزیراعظم کو دیے جائیں گے۔

حکومتی مجوزہ ترمیم کے مطابق جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجزبہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کے لیے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی، کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے۔

علاوہ ازیں وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکے گا، چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکے گی، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا۔

مجوزہ ترمیم میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر 3 سینئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا، چیف جسٹس کے عہدے کی میعاد تین سال ہوگی، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے عہدے کی میعاد بھی تین سال ہوگی۔ آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہوگی جبکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال ہوگی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں