جب رومینہ خورشید عالم نے اپریل 2024 میں عہدہ سنبھالا تو وہ اس سے وابستہ ذمہ داریوں سے بخوبی واقف تھیں۔ سینیٹر شیری رحمان کی کوپ 27 میں ترقی پذیر ممالک کے لئے نقصان اور تباہی فنڈ قائم کرنے سے متعلق مذاکرات کی تاریخی قیادت اور دیگر پیشروؤں کی اعلیٰ کارکردگی کے ساتھ اس عہدے سے وابستہ توقعات کافی زیادہ ہیں۔ رحمان سے پہلے، سابق وزیر ماحولیات اور معروف موسمیاتی وکیل، ملک امین اسلم، پہلے ہی پاکستان کے موسمیاتی چیلنجز کو عالمی سطح پر پیش کرچکے ہیں۔
پاکستان نقصان اور تباہی فنڈ کے معاوضے کا منتظر ہے، اس دوران موسمیاتی رابطہ کار رومینہ خورشید عالم نے ڈائیلاگ ارتھ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ملک کے موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے اور کوپ 29 کے حوالے سے تیاری کے بارے میں اپنے وژن پر گفتگو کی
رومینہ خورشید عالم اپنے پیشروؤں کی طرف سے رکھی گئی بنیادوں کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور ساتھ یہ بھی جانتی ہیں کہ آگے ایک طویل سفر ہے۔ نمایاں پیش رفت کے باوجود، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے سے دوچار مملک میں سے ایک ہے۔ شدید اور متواتر موسمی واقعات کے ساتھ، قوم کو ایک مشکل جنگ کا سامنا ہے۔ اگرچہ حالیہ مالیاتی بجٹ میں مالی سال 2024-25 کے لئے موسمی طور پر حساس علاقوں کے لئے مختص کئے گئے فنڈز میں اضافہ کیا گیا ہے، لیکن بہت سے چیلنجز بدستور موجود ہیں۔
کوپ 29 قریب ہے اور ملک ایسے موڑ پر ہے جہاں اسے احتیاط سے منصوبہ بند پالیسیوں اور فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے۔
ڈائیلاگ ارتھ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں موسمیاتی رابطہ کار (کلائمیٹ کوآرڈینیٹر) رومینہ خورشید عالم نے اپنے پیشروؤں کو سراہا اور اپنے کیریئر کے سفراوراہداف کا خاکہ پیش کیا۔ وہ اپنا تعارف بطور ایک پر عزم موسمیاتی کارکن کراتی ہیں جوکہ پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے کا جذبہ رکھتی ہیں۔
انہوں نے بتایا، ” میرا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے ہے، میں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 2005 میں پرائم منسٹر یوتھ پروگرام سے کیا۔ 2008 تک میں مسلم لیگ ن کے گوجرانوالہ چیپٹر کی سیکرٹری جنرل رہی۔ بطور مسیحی اور بعد میں اسلام قبول کرنے کے بعد بھی پارٹی سے میری وابستگی برقرار رہی‘‘۔
انہوں نے اپنے عہدے کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیا، “ وزیر اعظم میرے باس ہیں؛ مجھے موسمیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ طاقت کی تعریف اس کے استعمال میں پوشیدہ ہے۔ میں اپنے اہداف کو جارحانہ طریقے سے حاصل کرنے میں یقین رکھتی ہوں، میرے نزدیک غیر فعالیت سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔”
ڈائیلاگ ارتھ: آپ نے آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اپنا اختیار استعمال کرنے کی بات کی ہے۔ اپنے موجودہ کردار میں آپ کے پاس کس قسم کا اختیار ہے؟ آپ اصل میں کتنی طاقت رکھتی ہیں؟
رومینہ خورشید عالم: موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی کوآرڈینیشن پر وزیر اعظم کی رابطہ کار کی حیثیت سے، میں نے پاکستان کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے اہم اقدامات کی قیادت کی ہے۔ میرے کام میں موسمیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنا، ماحولیاتی نظم و نسق کو بڑھانا، اور لچکدار منصوبوں کے لیے بین الاقوامی تعاون حاصل کرنا شامل ہے۔ میری توجہ پلاسٹک کے فضلے، پانی کے تحفظ، اور قابل تجدید توانائی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے پر بھی مرکوز ہے۔
تاہم، میرا کردار مشاورت اور سہولت کار کا ہے، ایگزیکٹو نہیں ہے۔ میں اثر و رسوخ استعمال کرسکتی ہوں اور رابطے وضع کرسکتی ہوں لیکن پالیسی کے نفاذ اور وسائل کی تقسیم کے لئے وزارتوں اور محکموں پر انحصار کرتی ہوں۔
آپ کی توجہ اس وقت کن اہم مسائل پر مرکوز ہے اور کون سے بڑے اقدامات پائپ لائن میں ہیں؟
ہماری توجہ فعال صوبائی تعاون کے ساتھ، موسمیاتی اثرات کے مقابلے میں پاکستان کی مطابقت بڑھانے کے لئے نیشنل اڈاپٹیشن پلان پر عملدرآمد کی قیادت پرمرکوز ہے۔ کوششوں میں پائیدار ترقی کے لئے موسمیاتی مالیات کو متحرک اور استعمال کرنے کی حکمت عملی تیار کرنا اور کاربن ٹریڈنگ کے لئے ایک فریم ورک کو حتمی شکل دینا شامل ہے تاکہ اخراج کو کم کیا جا سکے اور گرین ماحول دوست ٹیکنالوجی کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ آلودگی کو روکنے کے لئے پلاسٹک پر پابندی کے ضوابط کو نافذ کرنا بھی ایک ترجیح ہے۔ مزید برآں، ایسے منصوبوں کو آگے بڑھانا جو ماحولیاتی پائیداری کو صنعتی کاموں میں ضم کریں اور عوامی بیداری بڑھانے اور اسٹیک ہولڈرز کو موسمیاتی اقدامات میں شامل کرنے کے لئے میڈیا کی حکمت عملی تیار کرنا اہم اقدامات ہیں۔
کوپ 29 قریب ہے اور پاکستان کا اس پر کافی انحصار ہے۔ سربراہی اجلاس کے لئے ملک کے بنیادی اہداف کیا ہیں اور آپ انہیں پیش کرنے کی کیا تیاری کررہی ہیں؟
کوپ 29 کے لئے پاکستان کے اہداف میں موسمیاتی مالیات میں اضافہ یقینی بنانا ہے، خاص طور پر کمزور خطوں میں موافقت اور لچک کے منصوبوں کے لئے۔ ملک کا مقصد اپنے نیشنل اڈاپٹیشن پلان کو فروغ دینا، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات اور تباہی کا ازالہ کرنا اور پائیدار منصوبوں میں سرمایہ کاری راغب کرنے کے لئے کاربن مارکیٹ کی پالیسی کو حتمی شکل دینا ہے۔ ہم محدود افرادی قوت کے باوجود فنڈنگ کی منظوری اور اربوں ڈالرز کے لئے 25 سے 30 پروجیکٹس تیار کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی شراکت داری کو مضبوط بنانا اور موسمیاتی انصاف کی وکالت، بشمول مالیات اور ٹیکنالوجی کی منتقلی میں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ منصفانہ سلوک بھی ترجیحات میں شامل ہیں۔
تیاری میں وزارتوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطہ، موسمیاتی اثرات پر ڈیٹا اور تحقیق کو مرتب کرنا، اعلیٰ سطح کی سفارت کاری، اور کوپ 29 میں پاکستان کے اہداف کو مؤثر طریقے سے پیش کرنے کےلئے ایک جامع مواصلاتی حکمت عملی تیار کرنا شامل ہے۔
سابقہ وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، شیری رحمان نے 2022 کے سیلاب کے بعد نقصان اور تباہی کے فنڈ کی وکالت میں اہم پیش رفت کی۔ کیا پاکستان کو اس اقدام سے کوئی مالی مدد ملی ہے اور موجودہ صورتحال کیا ہے؟
پاکستان میں 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد، سابق وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کوپ 27 میں نقصان اور تباہی کے فنڈ کے قیام کی پرزور اپیل کی۔ اس فنڈ کا مقصد پاکستان جیسے ممالک کی مدد کرنا تھا جو موسمیاتی تبدیلیوں سے غیر متناسب طور پر متاثر ہیں۔
کوپ 27 کے دوران نقصان اور نقصان کے فنڈ پر باضابطہ طور پر اتفاق کیا گیا، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔ تاہم، فنڈ کو فعالیت کی رفتار سست ہے ،اس کی ساخت، حکمرانی، اور فنڈز تک رسائی کے معیار کے حوالے بات چیت جاری ہے۔ پاکستان، اس پر تیزی سے عملدرآمد کے لئے ان مذاکرات میں فعال طور پر شامل رہا ہے، تاکہ کمزور ممالک کو بروقت امداد مل سکے۔
پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ حکومت موسمیاتی خدشات کو اپنی وسیع تر توانائی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں میں کیسے ضم کر رہی ہے؟
پاکستان چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باوجود بتدریج آب و ہوا کے مسائل کو اپنی توانائی، اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں میں ضم کر رہا ہے۔ متبادل اور قابل تجدید توانائی کی پالیسی (2019) کا مقصد 2030 تک 60 فیصد صاف توانائی حاصل کرنا ہے، جس میں شمسی، ہوا اور پن بجلی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ نیشنل الیکٹرک وہیکلز (ای وی) پالیسی فضائی آلودگی اور معدنی ایندھن پر انحصار کو کم کرنے کے لئے الیکٹرک وہیکلز کے استعمال کو فروغ دیتی ہے۔ گرین فنانسنگ کے اقدامات، جیسے قابل تجدید توانائی کی فنانسنگ اسکیم اور پاکستان کے پہلے گرین بانڈ کا اجراء ، پائیدار توانائی کی سرمایہ کاری کو سپورٹ کرتے ہیں۔
اقتصادی منصوبہ بندی میں بشمول موسمیاتی کارروائی (ایس ڈی جی 13)، سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز شامل ہیں، اور کمزور گروہوں پر موسمیاتی اثرات کو تسلیم کیا گیا ہے، ساتھ ہی نیشنل اڈاپٹیشن پلان (این اے پی ) اور موسمیاتی لچکدار زراعت کے اقدامات ان مسائل کو حل کرتے ہیں۔ احساس پروگرام جیسے سماجی تحفظ کے نیٹ ورک خواتین اور پسماندہ کمیونٹیز میں موسمیاتی اثرات سے پیدا ہونے والی غربت کو کم کرنے پر ہیں۔ محدود وسائل اور نفاذ کے مسائل سمیت چیلنجز برقرار ہیں، لیکن جامع اور مساوی آب و ہوا کی پالیسیوں کے لئے عزم بھی برقرار ہے۔
فضائی آلودگی سے متعلق پاکستان کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون کتنا اہم ہے اور اس تعاون کو فروغ دینے کے لئے کیا اقدامات کئے جا رہے ہیں؟
ماحولیاتی چیلنجوں جیسے فضائی آلودگی، ہمالیائی ماحولیاتی نظام کے انتظام، اور آبی وسائل کے مسائل سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون بہت ضروری ہے۔
فضائی آلودگی پورے جنوبی ایشیائی خطے کو متاثر کرتی ہے، جس کی نگرانی، ٹیکنالوجی کے اشتراک اور اخراج کے معیارات میں مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہمالیائی ماحولیاتی نظام کا انتظام، پانی اور حیاتیاتی تنوع کے لئے اہم ہے، اور مشترکہ تحقیق اور تحفظ کا مطالبہ کرتا ہے۔ قلت اور تنازعات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کے ساتھ پانی کے وسائل کا انتظام ضروری ہے۔
پاکستان علاقائی اقدامات میں فعال طور پر مصروف ہے جیسے ماحولیاتی انتظام کے لئے ساؤتھ ایشیا کوآپریٹو انوائرمنٹ پروگرام (ایس اے سی ای پی) میں شرکت، انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت بھارت کے ساتھ بات چیت کا انعقاد کررہا ہے، اور تحقیق اور تعاون کے لئے ہمالین یونیورسٹی کنسورشیم (ایچ یو سی) کا رکن ہے۔ دو طرفہ اور کثیر الجہتی معاہدے بھی ماحولیاتی مسائل میں مددگار ہیں۔ ان تعاون پر مبنی کوششوں کو مضبوط بنانا خطے میں پائیداری اورمطابقت کو یقینی بنانے کے لئے اہم ہے۔
(یہ تحریر ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے)