جعلی بھرتیوں کے کیس میں اینٹی کرپشن عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر پرویز الٰہی کی درخواست ضمانت پر سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے جعلی بھرتیوں کے کیس میں درخواست ضمانت دائر کی جس پر اینٹی کرپشن عدالت نے سماعت سے انکار کر دیا۔فاضل جج علی رضا اعوان نے ریماکس دیے کہ پراسیکیوشن کا رویہ ناقابل برداشت ہے، عدالت کو مزاق سمجھا ہوا ہے۔
اسپیشل جج اینٹی کرپشن عدالت علی رضا اعوان نے کیس سینئر اسپیشل جج کوبھجوا دیا۔ عدالت کے اظہار برہمی کرنے پر اینٹی کرپشن نے آج ریکارڈ پیش کیا۔
اینٹی کرپشن کے مطابق پرویز الٰہی اور دیگر نے پنجاب اسمبلی میں بھرتیوں میں جعلسازی کی۔ عدالت نے پرویز الٰہی کی ضمانت پر سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
12 جون کو جعلی بھرتیوں کے کیس میں پرویز الٰہی کے خلاف غیر قانونی بھرتیوں سے متعلق اینٹی کرپشن میں مققدمے کی سماعت سیشن عدالت میں ہوئی تھی۔
عدالت نے پرویز الٰہی کا جسمانی ریمانڈ نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
اینٹی کرپشن اور پرویز الٰہی کے وکلا نے عدالت میں کیا کہا؟
سماعت کے دوران محکمہ اینٹی کرپشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ من پسند لوگوں کو بھرتی کرنے کیلیے ٹمپرنگ کی گئی، جو غریب تھا 60 نمبر والا وہ بھرتی نہ ہوا 8 نمبر والا بھرتی ہوگیا، یہ ٹیکنیکل نوعیت کا کیس ہے جس کی گرفتاری میں انویسٹی گیشن مکمل ہو سکتی ہے، تفتیش کیلیے ان کی کسٹڈی درکار ہے۔
وکیل نے استدعا کی کہ ملزم کا 14 دن کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے، جب اسامیاں آئی تو ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ مجھے بھی حصہ دو ان کی آپس میں لڑائی ہوئی، اس کے بعد اسپیکر خود چیئرمین بن گئے۔
اس پر پرویز الٰہی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 3 مقدمات میں میرے موکل عدالت سے ڈسچارج ہو چکے، ایف آئی آر میں کہا کہ 2 سال قبل پرویز الٰہی نے صدارت کی، اجلاس میں نتیجہ تبدیل کا فیصلہ کیا مگر 2 سال ان لوگوں نے کچھ کیوں نہ کیا۔
وکیل نے کہا کہ 2 جون کو آپ کی عدالت میں پیش کیا اور 3 جون کو گوجرانولہ پیش کیا، اسی دوران یہ ایف آئی آر اینٹی کرپشن درج کرتا ہے، پنجاب اسمبلی کی سیکشن 10 کے تحت بھرتیاں کی گئیں، سیکشن 7 کے تحت امیدوار کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔
پرویز الٰہی کے وکیل نے مزید کہا کہ اینٹی کرپشن غیر قانونی طور پر ریکارڈ پنجاب اسمبلی سے لے گئی، پرویز الٰہی سے اب انہیں کیا برآمد کرنا ہے؟ سب کچھ سوشل میڈیا اور قومی میڈیا پر چل رہا ہے، جن ملازمین پر غیر قانونی بھرتی کا الزام ہے انھیں ہٹایا نہیں گیا۔
وکلا کی بحث مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔