پاکستانی معاشرے میں خاندان میں شادیوں کا رواج کافی پایا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر افراد کے آباﺅ اجداد ایک ہی ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے کیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ خاندانوں میں آپس میں کی جانے والی بچوں کی شادیاں یا یوں کہہ لیں کزن میرجز سے بچوں میں پیدائشی نقص کا خطرہ بڑھ جاتا ہے؟
اس بات کا جواب اتنا آسان نہیں بلکہ اسے جاننے کیلئے انسان کے بنیادی جینیاتی اصولوں سے واقفیت ضروری ہے جس کے بعد صورتحال واضح ہوسکے گی۔ دنیا کے کچھ حصوں میں کزنز کے درمیان شادی کو بہترین تصور کیا جاتا ہے جبکہ کچھ حصوں میں انہیں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔
یہ حقیقت جان لینا ضروری ہے کہ اولاد میں جینیاتی مرض اس وقت منتقل ہوگا جب آپ کے جینز میں کوئی مسئلہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کزن میرج کے حوالے سے لاحق خدشات کے باوجود جدید دور میں بھی بہت سے گھرانوں میں شادیاں خاندان میں ہی کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں جینٹک کاؤنسلر فضا اکبر نے کزنز کی شادیوں پر میڈیکل نقطہ نظر کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔
انہوں نے بتایا کہ انسان کا جینوم یعنی اس کا جینیاتی کوڈ جسے ڈی این اے بھی کہتے ہیں، پڑھا جاچکا ہے اور بیماریاں کس طرح ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہیں، ہم ان کے بارے میں اتنی تفصیل سے جانتے ہیں جیسا پہلے ممکن نہیں تھا۔
فضا اکبر نے بتایا کہ قریبی رشتہ داروں میں بنائے ہوئے تعلقات سے ہونے والی اولاد میں چند مخصوص بیماریوں کی شرح زیادہ پائی گئی ہے، اس طرح کے امراض والدین سے بچوں میں مخصوص ڈی این اے کے باعث ورثے میں منتقل ہوتے ہیں جیسے سینڈروم، تھیلی سیمیا اور ذہنی معذوری وغیرہ۔
ان کامزید کہنا تھا کہ کزن میرجز سے ڈی این اے شیئر کرنے کی شرح بڑھ جاتی ہے اور جتنا زیادہ ایک دوسرے سے ڈی این اے شیئر کریں گے اتنے ہی زیادہ جینیاتی امراض آنے والی اولاد میں سامنے آنے کا امکان بڑھے گا۔