16.7 C
Dublin
جمعہ, مئی 31, 2024
اشتہار

کرپس مشن کی ناکامی اور قائدِ اعظم کی سیاسی بصیرت

اشتہار

حیرت انگیز

مارچ 1942ء میں سَر اسٹیفورڈ کرپس برطانیہ سے دلّی پہنچے۔ وہ ایک وفد کے ساتھ بطور سربراہ یہاں آئے تھے اور اس دورۂ ہندوستان کا مقصد یہاں کی سیاسی قیادت سے مذاکرات اور اپنی تجاویز ان کے سامنے رکھنا تھا۔ تاریخ کے صفحات نے کرپس تجاویز کے نام سے محفوظ کیا ہے جنھیں‌ مسترد کردیا گیا تھا۔

برطانوی نمائندے سَر کرپس نے ہندوستان کے سیاسی قائدین سے طویل مذاکرات کے بعد 30 مارچ کو اپنی تجاویز ان کے سامنے رکھیں لیکن ہندوستانی قیادت نے انھیں قبول نہ کیا اور برطانوی وفد کو ناکام و نامراد لوٹنا پڑا۔

سَر کرپس کو ہندوستان کیوں بھیجا گیا تھا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ 1942ء کے اوائل میں جب برطانوی سرکار نے محسوس کیا کہ ایشیا میں اس کے مقبوضہ جات اور کالونیاں ایک ایک کر کے ہاتھ سے نکلنے لگے ہیں تو اس نے ہندوستان کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے، انھیں اپنی حکومت سے مطمئن کرنے اور اپنے سیاسی تنازعات اور جنگ کے تعلق سے ہندوستانیوں کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلہ میں‌ ایک وفد سَر اسٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں ہندوستان روانہ کیا تاکہ گفت و شنید سے ہندوستان کے آئینی مسائل کا حل نکالا جائے۔ اس سے برطانیہ کو دراصل یہاں اپنے اقتدار کو طول دے کر مالی اور افرادی قوّت سے فائدہ اٹھانا مقصود تھا۔ جب کہ اسے دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کی کام یابی سے سخت پریشانی اور اپنے دوسرے مخالفین کی برتری کا خوف ستا رہا تھا جسے ختم کرنے انگریزوں کو ہندوستانیوں کے تعاون اور مدد کی اشد ضرورت تھی۔ اس خیال کے پیش نظر حکومت برطانیہ نے ہندوستان میں اپنی حکومت کے رویّے میں تھوڑی نرمی اور لچک پیدا کرنا ضروری سمجھا تھا۔

- Advertisement -

سَر اسٹیفورڈ کرپس نے ہندوستان میں قائداعظم محمد علی جناح، پنڈت جواہر لال نہرو، مہاتما گاندھی، ابوالکلام آزاد اور متعدد بڑے سیاسی راہ نماؤں سے ملاقاتیں کیں اور ان کو برطانیہ کے حق میں قائل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔

سَر کرپس کی تجاویز میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہ ہندوستان میں‌ ایک نئی وفاقی مملکت قائم کرے جسے دولتِ مشترکہ کے دوسرے رکن ممالک کے برابر ڈومینین کا درجہ حاصل ہوگا۔ یہ رسماً تاجِ برطانیہ کا وفادار ہو گا، تاہم داخلی اور خارجی امور میں کسی کا زیر دست نہ ہوگا۔ سَر اسٹیفورڈ کرپس کی ان تجاویز کو مسلم لیگ اور کانگریس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کر دیا اور وہ نامراد لوٹ گئے۔

اس وقت جنگِ عظیم کے باعث ہندوستان میں بھی کئی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اور جاپانیوں کی پیش رفت نے ہندوستان میں بھی انگریزوں کو پریشان اور ان کے راج کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ عوام میں برطانیہ کے خلاف جذبات اور انگریز راج سے نفرت زوروں پر تھی۔ ان حالات نے برطانیہ کو کرپس مشن کا سہارا لینے پر مجبور کردیا۔ اس مشن ناکامی کے بعد کانگریس کی جانب سے "ہندوستان چھوڑ دو” کا نعرہ بلند کیا گیا، ساتھ ہی سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا بھی عندیہ دے دیا گیا۔ اس نے برطانوی حکومت کو مشتعل کر دیا اور مشن کی ناکامی کے بعد برطانیہ نے بغاوت کے خوف سے ہندوستان کے سیاسی قائدین اور برطانیہ مخالف تحریکوں کے کارکنوں کو پابندِ سلاسل اور ان پر مقدمات بنا کر تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس نے ملک کی سیاسی فضا کو مزید مکدر کیا اور پورے برصغیر میں پُرتشدد مظاہرے اور مختلف واقعات رونما ہونے لگے۔ مسلم لیگ نے اس تحریک میں حصہ نہیں لیا، کیونکہ بقول قائد اعظم اس تحریک کا مقصد نہ صرف انگریزی حکومت کو اس پر مجبور کرنا ہے کہ وہ کانگریس کو اختیارات منتقل کر دے بلکہ اس کا مطلب یہ بھی بنتا ہے کہ ہم اپنے لوگوں سے کہہ دیں کہ وہ کانگریس کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق یہی وہ وقت تھا جب آل انڈیا مسلم لیگ محمد علی جناح کی قیادت میں اپنی سیاست کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں