وہ وقت اب دور نہیں جب گوشت کے لیے مرغی یا کوئی اور جانور ذبح کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، کیوں کہ لیبارٹری اور کارخانوں میں تیار کردہ گوشت جلد بازاروں اور ریستورانوں میں دستیاب ہوگا۔
مصنوعی گوشت بنانے والی صلاحیت دنیا کو کچھ سالوں میں اس مقام پر لے جائے گی جہاں گوشت کے لیے کسی بھی جانور کو ہلاک کرنے یا کاٹنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
گوشت کی کاشت سے کیا مطلب ہے؟
بر طانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے 1932 میں پیش گوئی کی تھی کہ ایک دن انسان مرغیوں کے جسم کے کچھ حصے ’سینہ‘ یا ’رانیں‘ کھانے کے لیے انھیں ایک مخصوص ماحول میں تیار کریں گے۔
امریکی حکومت نے ابتدائی طور پر کیلیفورنیا کی دو کمپینوں کو چکن کا گوشت فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے، جو چکن کا گلا کاٹے بغیر اس سے بالواسطہ طور پر گوشت حاصل کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں کے نام اپسائیڈ فوڈز اور گڈمیٹ ہیں۔ ان کی فیکٹریوں میں چکن کے خلیے سے گوشت تیار کیا جاتا ہے، جو اپنی ساخت، اجزا اور ذائقے میں ہو بہو چکن جیسا ہے۔ سائنس کی اصطلاح میں اس طریقہ کار کو گوشت کاشت کرنا کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ گوشت اسی طرح پیدا ہوتا ہے جس طرح زمین میں بیج ڈالنے سے پودا پھوٹتا ہے اور نشوونما پاتا ہے۔
کیا صرف چکن؟
دنیا بھر میں 150 سے زیادہ کمپنیاں اس پر کام کر رہی ہیں اور ان کے تجربات صرف چکن تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ بھیڑ، گائے اور دوسرے جانوروں کا گوشت لیبارٹری میں کاشت کرنے کے تجربات ہو رہے ہیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق امریکی کمپنی ’ایٹ‘ کو اس کے لیباریٹری میں تیار کردہ گوشت کو سنگاپور میں فروخت کی اجازت مل گئی ہے۔
گوشت کی بین اقوامی طلب کتنی ہے؟
ایک اندازے کے مطابق ہر سال 70 ارب جانوروں کو 7 ارب انسانوں کے لیے ذبح کیا جاتا ہے، گوشت کے لیے عالمی ڈیمانڈ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2050 تک دنیا کی آبادی 9 ارب تک پہنچ جائے گی، جس سے گوشت کی مانگ میں مزید اضافہ متوقع ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات اور جانوروں کی تعداد میں امکانی کمی کے پیش نظر گوشت حاصل کرنے کے متبادل طریقے تلاش کرنے اور انھیں ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ وہ جین سے گوشت کی تیاری کو ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
خلیے سے تیار کردہ گوشت کب دستیاب ہوگا؟
چکن کے خلیے سے تیار کیے جانے والے گوشت کی گھروں تک دستیابی میں چند سال لگ سکتے ہیں۔ فی الحال یہ گوشت صرف فاسٹ فوڈ اسٹورز کو ہی فراہم کیا جائے گا، کیوں کہ اس کی رسد بہت محدود ہے، اس کی فراہمی میں اضافے اور عوام میں قبولیت بڑھنے کے بعد ہی اسے گروسری اسٹوز پر لایا جائے گا۔
کیا عوام قبول کر لیں گے؟
تجزیہ کاروں کے مطابق تمام تر کامیابیوں کے باوجود ابھی یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ عوام اسے کتنی جلدی قبول کریں گے؟