پاک بھارت معرکہ میں بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستانی حملوں سے نہ صرف بھارتی جنگی طیارے زمین پر آرہے بلکہ پاکستان نے دشمن ملک کے فضائی دفاعی نظام کو بھی ملیا میٹ کر دیا۔ اس جنگ نے ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کی برتری ہی ثابت نہیں کی بلکہ خطّے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھارت کے قائدانہ کردار کے غبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے۔
بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان نے دس مئی کی صبح آپریشن بنیان المرصوص شروع کیا اور بھارت کے ان فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جہاں سے پاکستان کے شہروں اور فوجی تنصیات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سائبر وار فیئر کے تحت بھارتی افواج کے درمیان رابطے کے نظام کے علاوہ فوج کو معاونت فراہم کرنے والے غیر فوجی ڈیجیٹل نظام کو بھی مفلوج کر دیا جس نے بھارت میں نظامِ زندگی بری طرح متاثر کیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سائبر جنگ دراصل سات مئی کو بھارتی جارحیت کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ پہلے بھارتی ہیکرز نے پاکستان کی سرکاری ویب سائٹوں کو نشانہ بنایا جس پر پاکستانی سائبر سیکیورٹی نے مؤثر دفاعی حکمتِ عملی اختیار کی اور حکومتی ڈیجیٹل اثاثوں کو ان حملوں سے محفوظ بنایا۔
آپریشن سالار شروع، بھارت کی ویب سائٹس ہیک کرلی گئیں
بھارت کی جانب سے سائبر حملے کا جواب دینے کے لیے پاکستانی ہیکرز نے منظم طریقے سے سائبر جنگ شروع کردی اور اسے آپریشن سالار کا نام دیا۔ اس رضا کار گروپ کے بھارتی ویب سائٹوں کو نشانہ بنانے سے بھارتی حکومت اور دشمن فوج بوکھلاہٹ اور افراتفری کا شکار ہوگئی جو پہلے ہی پاکستانی فوج کے حملوں کی وجہ سے دباؤ میں آچکی تھی۔ بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق آپریشن سالار میں سائبر ماہرین نے نریندر مودی کی آفیشل ویب بھی ہیک کر لی۔ پاکستانی ہیکروں کا کہنا تھا کہ ہم پُرامن قوم ہیں، اور ٹیکنالوجی کا استعمال بھی مثبت اور تعمیری مقاصد کے لیے کرتے ہیں، لیکن مادرِ وطن کی سالمیت، ہماری خود مختاری یا قومی وقار کو چیلنج کرنے والے دشمن کو بتانا ضروری کہ ہم سائبر وار کے ذریعے اسے بے بس کرنا بھی جانتے ہیں۔
بھارت کی کئی اہم فوجی تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ
اے آر وائی نیوز کی ایک خبر کے مطابق دس مئی کو پاکستان نے بھارتی دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کے لیے ایک وسیع البنیاد سائبر حملہ کیا۔ اس حملے کے نتیجے میں فوج کا آئی ٹی انفرااسٹرکچر، افواج کے باہمی موصلاتی نظام سمیت بھارتی فضائیہ کے رابطے کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔ اس کے علاوہ بھارت کے مختلف اداروں کی ویب سائٹس، سرکاری ای میل نظام، مختلف شہروں میں بجلی کا نظام، بھارتی ریلویز اور ایئر پورٹس کے علاوہ پیٹرولیم کے شعبے کا ڈیجیٹل نظام بھی ہیک کر لیا گیا جس سے یہ ادارے بھارت کی مسلح افواج کو ہر قسم کی سہولت اور معاونت فراہم کرنے میں مشکلات کا شکار ہوئے۔
سائبر وار کے ان پاکستانی ماہرین نے بھارت کے مشرقی، شمالی اور جنوبی بجلی کے لوڈ ڈسپیچ سینٹرز کا کنٹرول حاصل کرتے ہوئے انہیں عارضی طور پر بند کر دیا۔ بعض میڈیا رپورٹوں میں دعویٰ کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں بھارت کے تقریباً 80 فیصد صارفین کو عارضی طور پر بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی جس سے وہاں کی انتظامیہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی۔
اس کے علاوہ بھارت میں ہر قسم کی نگرانی اور کارروائی کا نظام بھی اس سائبر وار میں بری طرح متاثر ہوا، کیوں کہ پاکستانی سائبر ماہرین نے کئی اہم اداروں کے سی سی ٹی وی نظام کو بھی ہیک کر لیا تھا۔ اس طرح یہ سائبر جنگ جس کا آغاز بھارت نے کیا تھا، اس کے لیے بڑے نقصان کا سبب بنی۔
سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے ہم تک پہنچنے والی بعض اطلاعات اور میڈیا رپورٹوں کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کا یہ سائبر وار فیئر حملہ نہ صرف اس شعبے میں ہماری صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ اس نے ڈیجیٹل دنیا میں بھارت کے ٹیکنالوجی اور سائبر سیکورٹی کے میدان میں دعوؤں اور پیشہ ورانہ قابلیت و استعداد کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ دنیا بھر میں ڈیجیٹل ایکسپورٹ مختلف ممالک کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر ڈیجیٹل اثاثوں کی تجارت 4.1 ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اور اس میں سالانہ 15 فیصد سے زائد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت اس وقت خطّے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اور سالانہ 180 ارب ڈالر صرف ٹیکنالوجی سے متعلق خدمات فراہم کر کے کماتا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان نے اس شعبے پر کورونا کے بعد توجہ دینا شروع کی ہے اور اس وقت پاکستان سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں برآمدات 3 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔
شعبۂ ابلاغیات کے استاد اور جدید ذرایع ابلاغ کے ماہر پروفیسر ریحان حسن طویل عرصہ تک تعلیمی شعبہ سے وابستہ رہے اور اب من گھڑت خبروں اور پروپیگنڈا کے خلاف ادارہ چلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جدید جنگی حکمتِ عملی میں سائبر حملوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اور انہیں انفارمیشن وار فیئر کے طورپر بھی دیکھا جاتا ہے۔ سائبر حملے کے ذریعے دشمن کے جوابی حملے کا نظام بھی مفلوج کیا جاسکتا ہے تاکہ دشمن جارحانہ حکمت عملی نہ اپنا سکے اور اپنے نظام میں ہی الجھ کر رہ جائے۔ ریحان حسن کا کہنا ہے کہ سائبر وار فیئر جدید جنگ کا لازمی حصہ بن گئی ہے۔
گزشتہ چند سال کے دوران بھارت نے اپنی سائبر ٹیکنالوجی سے متعلق صلاحیتوں میں اضافہ کیا۔ بھارت نے ڈیفنس سائبر ایجنسی اور انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم جیسے ادارے قائم کیے ہیں اور اب مقامی سطح پر سائبر اور مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز پر کام کررہا ہے۔ بھارتی ہیکروں نے ماضی بہت سی ویب سائٹوں جیسا کہ نادرا کی ویب سائٹ کو ہیک کرنے کے علاوہ موبائل فونز بھی ہیک کرنے کی کوششیں کی تھیں جن کے بعد پاکستان نے بھی اپنے سائبر سیکورٹی نظام کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور ماہرین کی خدمات حاصل کی ہیں۔
عامر جہانگیر الیکٹرانک میڈیا کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ابلاغیاتی جنگ اور اس سے متعلق موضوعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان بھارت جنگ میں سائبر وار فیئر کو ایک نیا رجحان سمجھتے ہیں۔ عامر جہانگیر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ معرکہ میں پاکستان نے جدید جنگی طرز کو اپنایا ہے جس میں روایتی جنگ اور ہتھیاروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ پاکستان نے سائیبر اسپیس میں ایک کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس معرکہ کے دوران روایتی جنگ لڑتے ہوئے ڈیجیٹل جنگی صلاحیت کا بھی بھرپور مظاہرہ کیا گیا ہے اور اسے بلاشبہ پاکستان میں ڈیجیٹلائزیشن کا درجۂ کمال کہا جاسکتا ہے جس سے بھارت کی ڈیجیٹل محاذ پر برتری کی قلعی کھل گئی ہے۔
عامر جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے نیشنل پاکستان کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (پی کے سی ای آر ٹی) اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی اے آئی ) قائم کی ہے۔ اس سے پاکستان میں ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ساتھ اس کی سائبر سیکورٹی کو بھی مرکزی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے ایک وسیع سوچ پائی جاتی ہے۔
سائبر صلاحیت کوئی لگژری یا پُرتعیش اقدام نہیں ہے بلکہ قومی طاقت کا اہم آلہ ہے۔ یہ سائبر سکیورٹیز میں علاقائی صورتحال میں فوجی توازن کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے درمیان سائبر توازن کو بھی قائم کرے گی۔ اس شعبے میں سرمایہ کاری اور ڈیجیٹل تصادم کے حوالے سے معیارات کا تعین کرنا بھی اہم ہے۔
سائبر سیکورٹی صرف جنگی ضروریات کے لیے نہیں بلکہ ڈیٹا کے تحفظ اور آن لائن کاروباری تحفظ کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ کیونکہ دنیا بھر میں جہاں ڈیجیٹلائزیشن بڑھ رہی ہے، وہیں ان ڈیجیٹل اثاثوں کی حفاظت کے حوالے سے خدشات بھی بڑھ رہے ہیں۔ زمانۂ جنگ نہ بھی ہو تو تجارتی نظام اور کاروبار کے لیے اپنی ڈیجیٹل سیکورٹی کی حفاظت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ٹیک جیوری کے مطابق یومیہ 30 ہزار ویب سائٹ پر سائبر اٹیک ہوتا ہے۔ یعنی ہر 11 سیکنڈ میں ایک سائبر حملہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سائبر سیکورٹی کا رجحان اور ضرورت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ سال 2029ء تک سائبر سیکورٹی کی مارکیٹ 271 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
عثمان آصف نے سائبر سیکورٹی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ٹیکنالوجی سے متعلق ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ پاک بھارت جنگ سے قبل انہوں نے ایک موقع پر بات چیت کے دوران ڈیجیٹل میدان میں پاکستان کے بھارت سے پیچھے رہ جانے سے متعلق کہا تھا کہ بھارت اس وقت جہاں پہنچا ہے، پاکستان بہت کم وقت میں اس پوزیشن کو حاصل کرسکتا ہے۔ کیونکہ مصنوعی ذہانت اور سائبر سکیورٹی نے ڈیجیٹل انڈسٹری کی صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔
اس وقت سائبر سیکورٹی ٹولز اور اس کے ماہرین کی طلب بڑھ رہی ہے۔ اور مستقبل میں بھی ان کی طلب میں اضافہ دیکھا جائے گا۔ ابھی سے ہم یہ طے کر لیں کہ کس طرح ہنگامی طور پر سائبر سیکورٹی میں پروفیشنلز تیار کرسکتے ہیں۔ ان پروفیشنلز کو جامعات اور انڈسٹری ملک کے لیے تیار کرے تاکہ ان کے پاس تعلیمی گہرائی کے ساتھ براہ راست صنعت کا تجربہ بھی ہو۔
پاکستان نے بھارت کو جہاں فوجی میدان میں شکست دی ہے، وہیں اس کے سائبر سیکورٹی نظام کی خامیوں کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔ اب پاکستان نے سائبر سیکورٹی کے شعبے میں خود کو منوا لیا ہے اور اب صرف اپنی برتری کا جشن ہی نہیں منانا ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ابھرتی ہوئی سائبر سیکورٹی مارکیٹ میں بھی اپنا مقام بنائیں اور اس شعبے پر بھرپور توجہ دی جائے۔ اس ضمن میں ماہرین کی مدد سے جامع منصوبہ بندی اور ٹھوس حکومتی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔