اشتہار

داغ دہلوی: قلعۂ معلّیٰ میں پروان چڑھنے والا شاعر اور ایک عاشقِ زار

اشتہار

حیرت انگیز

نواب مرزا خاں کا تخلّص داغ تھا اور فصیح الملک، نواب ناظم جنگ بہادر کے خطاب سے نوازے گئے داغ دہلوی صرف استاد شاعر ہی نہ تھے بلکہ فکر و معنویت کے ساتھ زبان و بیان پر کامل عبور رکھتے تھے۔

داغ کا کلام، خطوط اور ان کے عشق بھی مشہور ہیں۔ انھوں نے اپنے دور کی مغنّیاؤں اور طوائفوں سے نہ صرف دل لگایا بلکہ خط لکھ کر ان سے اپنے دل کا حال بیان کیا جو بعد میں کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ داغ کے ہزاروں شاگرد تھے اور ان میں سے کئی شاگرد تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان میں فکر و فن کی آبرو تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان شاگردو‌ں میں والیانِ ریاست اور نواب و امراء بھی شامل ہیں۔

داغ کے کلام میں روزمرہ تیکھا پن، محادورے کی چاشنی، شوخی، حلاوت اور نزاکت سبھی کچھ موجود ہے۔ زباں دانی اور محاورہ تو ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔

- Advertisement -

وہ لوہارو کے ایک رئیس شمس الدین خان کے بیٹے تھے۔ 25 مئی 1831ء کو داغ دلّی کے مشہور محلّہ چاندنی چوک میں پیدا ہوئے۔ غدر کے ہنگامے میں ان کے والد کو ایک انگریز ایجنٹ کے قتل کے الزام میں پھانسی دے دی گئی اور تب داغ اپنے رشتہ دار کے ساتھ رام پور چلے گئے جہاں مولوی غیاث الدّین سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی والدہ جب بہادر شاہ کے ولی عہد مرزا فخرو سے وابستہ ہوگئیں تو اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے گئیں‌ اور قلعہ معلّیٰ میں داغ نے تعلیم و تربیت پائی۔ قلعہ معلّیٰ میں زبان و ادب کی فضا میں داغ کو مطالعہ کا شوق بھی ہوا اور آسودہ حالی نے شاعری کا سلسلہ بھی نکھارا۔ عبدالمجید قریشی اپنی تصنیف "کتابیں‌ ہیں‌ چمن اپنا” میں لکھتے ہیں کہ داغ کی چار پانچ الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں‌۔ کتب خانے کی فہرست مجلّد تھی۔ مرزا صاحب اپنے احباب اور شاگردوں کو کتابیں مستعار بھی دیتے رہتے، لیکن اُن کا اندراج ایک علاحدہ رجسٹر میں کر دیتے۔ اس رجسٹر کی تنقیح ہر دوسرے تیسرے مہینے ہوتی رہتی اور اگر کوئی کتاب کسی کے پاس رہ جاتی تو تقاضا کر کے منگوا لیتے۔

شعرائے متاخرین میں داغؔ کا مرتبہ نہایت بلند اور وہ اس دور کے اہم شاعر ہیں۔ داغ دہلوی نے قلعۂ معلّی کی ٹکسالی زبان میں شاعری کی اور اردو غزل کو بوجھل تراکیب اور بھاری بندشوں سے نکال کر سلاست اور روانی سے اس طور سجایا کہ آج بھی ان کا نام زندہ ہے۔ ان کا کلام سننے والے کے دل میں ایک کیفیت پیدا کر دیتا ہے جسے تاثیرِ سخن کہا جاتا ہے۔ گو وہ آتشؔ، ذوقؔ اور غالبؔ کے ہم پلہ نہ ہوسکے لیکن ان کے شاعرِ خداداد ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ جو شعر ان کی زبان سے نکلا پر اثر ہے۔ ان کا تمام کلام ان کی طبیعت کے قدرتی رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔

داغ حقیقت پسند تھے، حسن پرست بھی تھے اور عاشق بامراد بھی! ان کی حسن پرستی اور ان کے عشق کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ یہاں ہم مخمور سعیدی کے ایک مضمون سے داغ کے عشق کے چند مشہور قصّے نقل کررہے ہیں۔ داغ کا منی بائی حجاب پر مر مٹنا بہت مشہور ہے۔

"زندگی میں جانے کتنی طوائفوں سے داغ کے مراسم رہے ہوں گے لیکن ان کا کوئی دیر پا نقش داغ کے روز و شب پر نظر نہیں آتا۔ یہ دیر پا نقش صرف کلکتے کی منی بائی حجاب نے چھوڑا جسے وہ ہمیشہ اپنے دل میں بسائے رہے۔”

"حجاب کو داغ نے آخری بار 3 جولائی 1882ء کو کلکتے میں الوداع کہا تھا۔ پھر وہ کچھ ایسے حالات سے دوچار رہے کہ حجاب سے ملاقات کی کوئی صورت نہیں نکال سکے۔ 1899ء میں انہوں نے نظام حیدرآباد کے ساتھ کلکتے کا سفر بھی کیا لیکن غالباً نظام کے معمولات کی پابندی کی وجہ سے انہیں حجاب سے ملاقات کی مہلت نہیں ملی۔ اس وقت تک کوئی حسّے صاحب حجاب کو پردہ نشیں بھی بناچکے تھے۔ داغ کے اس سے مل نہ سکنے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو گی۔”

"داغ کی حجاب سے ملاقات چاہے نہ ہو سکی ہو لیکن حجاب تک یہ خبریں ضرور پہنچی ہوں گی کہ داغ والیِ دکن کے ساتھ کلکتے آئے ہیں اور رئیسانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کے دل میں بھی پرانی یادوں نے انگڑائی لی ہوگی۔ چنانچہ اس نے داغ کے ساتھ مراسلت کا رابطہ قائم کیا اور ان کے ایما پر حسّے صاحب سے طلاق لے کر داغ کے پاس حیدرآباد جانے کا فیصلہ کرلیا۔”

"دسمبر 1898ء میں داغ کی اہلیہ فاطمہ بیگم کا انتقال ہوگیا تھا۔ عجب نہیں کہ انہوں نے حجاب سے یہ وعدہ بھی کیا ہو کہ وہ اس سے نکاح کر لیں گے۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دہلی دربار( جنوری 1903ء) سے داغ، جو نظام کی ہمراہی میں تھے، واپس ہوئے تو ان کے ورودِ حیدر آباد کے فوراً بعد کسی نے ان سے پوچھا کہ آخر اب آپ کیوں حجاب سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، آپ کی بتیسی مصنوعی ہے، سر اور داڑھی کے بال خضاب سے رنگے جاتے ہیں۔ تو داغ نے کہا کہ مجھے اپنی کبر سنی کا احساس ہے، لیکن میری مسہری آج بھی ایک نو عروس کی مسہری معلوم ہوتی ہے۔ رنگین جالی کے پردے ہیں، جن پر گوٹا لگا ہوا ہے اور انگوری بیل کی جھالر بھی لہرا رہی ہے۔ یہ سب روا ہے تو منی بائی حجاب میرے لیے کیوں ناجائز کر دی جائے۔ اس سے پہلے داغ نے اپنے بے تکلف دوستوں کی ایک محفل میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا حسّے صاحب سے طلاق کے بعد حجاب کو عدت میں بیٹھنا ہوگا؟”

"داغ نے 3 جولائی 1883ء کو حجاب کو کلکتے میں خدا حافظ کہا تھا۔ اٹھارہ انیس برس کے بعد انہوں نے 18 یا 19 جنوری 1903ء کو اسے حیدرآباد میں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے حجاب کے قیام کے لیے ایک مکان کا انتظام کر دیا اور اس کی ماہانہ تنخواہ بھی مقرر کردی جو سیّدہ جعفر کے بیان کے مطابق ابتدا میں ساٹھ روپے تھی، پھر سو روپے کر دی گئی۔”
(بحوالہ: داغ دہلوی، حیات اور کارنامے، دہلی اردو اکادمی، صفحہ 56)

"حجاب کا ہاتھ کھلا ہوا تھا۔ یہ رقم اس کی ضرورتوں کی کفالت کے لیے ناکافی تھی۔ وہ مزید رقم کا مطالبہ کرتی ہو گی۔ داغ نے اپنے ایک عزیز شاگرد میر حسن علی خاں کو ایک بار لکھا تھا: "حجاب کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، آئے دن سر گرداں رہتی ہے۔” (از خطوطِ داغ، مرتبہ رفیق مارہروی)

"حجاب حیدر آباد پہنچی تو اس پر مذہب کا رنگ چڑھ چکا تھا اور وہ صوم و صلٰوۃ کی پابند تھی۔ رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھنے لگی تھی اور اوراد و وظائف سے بھی شغف پیدا ہوگیا تھا۔ میر یٰسین علی خاں نے، جنہوں نے اس وقت حجاب کو دیکھا تھا، اس کا حلیہ یوں بیان کیا ہے: "کوئی 40، 45 کا سن ہوگا۔ رنگ صاف، آنکھیں بڑی بڑی، ناک اونچی، بالوں پر خضاب چڑھا ہوا، پتلے پتلے لب، میانہ قد، اونچی پیشانی، مانگ پھٹی پھٹی سی، تنگ اطلس کا پاجامہ، مغزی ٹکا ہوا لانبا کرتا اور اس پر سفید اوڑھنی۔ پاؤں میں دہلی کی جوتی اور دونوں ہاتھوں کی پتلی پتلی انگلیوں میں انگوٹھیاں۔”(بحوالہ: نگار، جنوری 1953ء)

حجاب یہی توقع لے کر آئی تھی کہ داغ اس سے نکاح کریں گے۔ اس نے آنے سے پہلے ہی داغ کو لکھ دیا تھا کہ "جب تک نکاح نہیں کر لوں گی، تمہارے سامنے نہیں آؤں گی۔ میں نے یہ تمام جھگڑا اس لیے نہیں کیا کہ شرعی باتوں کی خلاف ورزی کروں۔ تم اس بھروسے میں نہ رہنا کہ میں تمہارے سامنے آؤں۔”

داغ کے روزنامچہ نگار کا بیان ہے،”ایک طوائف کی ایسی دنیا بدلی ہے کہ کوئی وقت وظیفے سے خالی نہیں ہے۔ مرزا صاحب فرما رہے تھے کہ دوچار برس میں ولیہ ہوجائیں گی۔” (مؤرخہ 22 جنوری 1903ء)

لیکن داغ حجاب کو اس رنگ میں دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے جا نماز اور تسبیح بھجوانے کا حجاب کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے یہ بھی کہلا بھیجا کہ”جب تک تمہارے اورادو وظائف نہیں چھوٹیں گے، اس وقت تک تم انسان نہیں بن سکتیں اور جب تک انسان نہ بن سکو، اس وقت تک میرے کام کی نہیں ہوسکتیں۔”

حجاب نے کچھ دن انتظار کیا کہ داغ اس کی راہ پر آجائیں۔ ادھر داغ نے بھی نباہنے کی اپنی سی کوشش کی مگر دونوں ہی ناکام رہے۔ داغ سے مایوس ہو کر حجاب اگست 1904ء میں کلکتے واپس چلی گئی۔

تمکین کاظمی "معاشقۂ حجاب و داغ” میں لکھتے ہیں:
"یہ صرف وضع داری اور دل لگی تھی۔ اس جذبۂ تفریح کو محبت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ دونوں طرف سے ایک ہی جذبہ کار فرما تھا۔ داغ اپنی دولت و ثروت اور عزّت و امارت کا نقش حجاب کے دل پر بٹھانا چاہتے تھے اور حجاب کی نظر داغ کی دولت پر تھی۔”

لیکن کم از کم داغ کے دل میں حجاب کے لیے نرم گوشہ ضرور تھا۔ حجاب کے کلکتے چلے جانے کے بعد داغ زیادہ زندہ نہیں رہے، لیکن جب تک رہے، اسے ماہانہ کچھ بھجواتے رہے۔”

مرزا فخرو کے انتقال کرنے کے بعد داغ اور ان کی والدہ کو قلعۂ معلّیٰ‌ چھوڑنا پڑا تھا۔ داغ تو حیدرآباد دکن کے ہوگئے اور وہیں وفات پائی۔ ان کے انتقال کا مہینہ 17 مارچ اور اکثر نے 16 فروری لکھا ہے۔ لیکن سنہ 1905ء تھا۔ داغ نے حضور نظام (دکن) سے وظیفہ بھی پایا اور وہاں‌ ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔ دکن کی مشہور تاریخی مکّہ مسجد میں‌ داغ کا جنازہ پڑھا گیا تھا۔

داغ کو مختلف نواب اور امراء کے علاوہ ریاستوں کی جانب سے وظیفہ ملا۔ ایسی ہی عنایت اور بخشش کا ایک بڑا دل چسپ واقعہ صدق جائسی نے بیان کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

"سرکار مرحوم ایک وسیع میدان میں کرسی پر رونق افروز تھے۔ اسٹاف کے تمام امرا دست بستہ دائیں اور بائیں کھڑے تھے۔

چابک سوار شاہی اصطبل کے گھوڑوں پر شہ سواری کے کمالات دکھا رہے تھے۔ سرکار مرحوم بہ نگاہ غور ایک ایک کے ہنر کو ملاحظہ فرما رہے تھے۔ ایک سرکش گھوڑا اپنے چابک سوار کو بہت تنگ کر رہا تھا۔ چابک سوار اپنے فن میں ایسا ماہر تھا کہ میخ کی طرح اس کی پیٹھ پر جما بیٹھا تھا۔

یکایک سرکار مرحوم داغ کی طرف متوجہ ہوئے، فرمایا۔

”کیوں داغ! تم بھی کبھی گھوڑے پر بیٹھے ہو؟“

انھوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ ”جوانی میں خانہ زاد بیٹھا ضرور ہے، مگر اس کو مدتیں گزریں، زمانہ ہوگیا۔“

ارشاد ہوا۔ ”اچھا آج ہمیں اپنی شہ سواری دکھاﺅ۔“

داغ نے عرض کیا، ”بہت خوب“

سرکار کے اشارے پر وہی بدلگام سرکش گھوڑا حاضر کیا گیا، بے چارے داغ صاحب ﷲ کا نام لے کر سوار ہوئے۔

ادھر انھوں نے باگ ہاتھ میں لی، اُدھر سرکار کے اشارے پر چابک سوار نے گھوڑے کو چابک رسید کی۔ چشمِ زدن میں داغ صاحب زمین پر قلابازیاں کھا رہے تھے اور گھوڑا تھا کہ آندھی کی طرح جنگل کی طرف بھاگا جا رہا تھا۔

پہلے داغ صاحب اٹھائے گئے، پھر سولہ چابک سوار اپنے گھوڑوں پر اس کے تعاقب میں جنگل کی طرف بھاگے، داغ صاحب کے چوٹ نہ آئی تھی، گرد جھاڑ کر سرکار مرحوم کے سامنے حاضر ہوئے، سرکار کا ہنسی کے مارے بُرا حال تھا۔

جب خوب جی بھر کے ہنس چکے تو فرمایا۔

”تم بہت اچھا سوار ہوئے، میں تمہیں چابک سواروں کا افسر مقرر کروں گا۔“ داغ صاحب آداب بجا لائے۔

پوچھا، ”ہماری ریاست میں کتنے دن سے ہو؟“

انھوں نے عرض کیا۔ ”دس سال سے۔“

سرکار نے مہا راجا بہادر (مہا راجا سرکشن پرشاد) کی طرف دیکھا۔ انھوں نے ہاتھ باندھ کر سَر جھکایا۔

ارشاد ہوا، ”ہم نے داغ کو ایک ہزار ماہانہ پر شاعرِ دربار مقرر کیا۔ ان کی دس برس کی تنخواہ ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے ابھی ابھی ان کو دے دو۔“ یہ حکم دے کر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔

دوسرے دن بارہ بجے سارے شہر نے دیکھا کہ بنڈیوں (چھکڑوں) پر داغ صاحب کی دس سال کی تنخواہ لدی ہوئی پولیس کے دستے کی حفاظت میں داغ کے گھر جارہی ہے۔”

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں