منگل, جولائی 2, 2024
اشتہار

ناؤروجی: وہ شخصیت جس نے برطانیہ کی لوٹ مار اور ہندوستانیوں کے استحصال کا پردہ چاک کیا

اشتہار

حیرت انگیز

دادا بھائی ناؤروجی کو آج ہم فراموش کرچکے ہیں، اور ان کا نام اور برطانوی راج میں ہندوستان کے عوام سے متعلق ان کی فکر اور دردمندی کا ذکر صرف کتابوں تک محدود ہے، مگر برطانیہ میں انھیں سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک قابلِ ذکر شخصیت سمجھا جاتا ہے اور ان کا نام عزّت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

آج دادا بھائی ناؤروجی کا یومِ وفات ہے۔ وہ برطانوی راج میں‌ متحدہ ہندوستان کے ایک دور اندیش اور زیرک سیاست داں ہی نہیں عوام کے بڑے خیر خواہ اور سماجی کارکن کی حیثیت سے نہایت عزّت اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ناؤروجی وہ پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ تجارت کی آڑ میں‌ برطانیہ لوٹ مار اور ہندوستان کے عوام کا استحصال کر رہا ہے۔

دادا بھائی ناؤروجی پارسی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ لبرل پارٹی سے وابستہ تھے اور انیسویں صدی میں برطانیہ میں ان کی وجہِ شہرت ہندوستان کے عوام کے ایک وکیل کے طور پر بہت زیادہ تھی۔ دادا بھائی لندن یونیورسٹی کالج میں گجراتی زبان کے استاد، ایک دانش ور کے علاوہ برطانیہ میں انڈیا کے پہلے فعال سیاست دان رہے۔ برطانیہ میں ان کو سیاسی اور سماجی شخصیت کے طور پر سوسائٹی میں بہت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جب دادا بھائی ناؤروجی نے 1892ء میں لبرل پارٹی کے ٹکٹ پر سینٹرل فنس بری اسکاٹ لینڈ سے انتخاب لڑنے کا اعلان کیا تو لارڈ سالسبری سے ایک حماقت سرزد ہو گئی۔ لارڈ سالسبری تین مرتبہ کنزرویٹو پارٹی کی طرف سے برطانیہ کا وزیر اعظم منتخب ہوا اور ایک ممتاز سیاست دان تھا۔ لارڈ سالسبری نے ایڈنبرا میں ایک اجتماع میں کہا کہ انسانیت نے بلندی کی کئی منازل طے کر لی ہیں اور برطانوی سیاست بھی بڑی حد تک تعصبات سے آزاد ہو چکی ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ ہم ایک سیاہ فام بھارتی کو برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب کر لیں۔ سالسبری کو رنگ و نسل کے اس عصب پر شدید ردّعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ ناؤروجی کو برطانوی پارلیمنٹ میں پہلے انڈین رکن منتخب کیا گیا۔ وہ دیکھتے دیکھتے انڈیا میں ایک ہیرو بن گئے۔

- Advertisement -

دادا بھائی ناؤروجی ستمبر 1825ء کو بمبئی کے ایک غریب پارسی گھرانے میں پیدا ہوئے اور اسی شہر میں 30 جون 1917ء کو وفات پائی۔ ناؤروجی نے اپنے زمانے میں مفت ابتدائی تعلیم کے ایک منصوبے سے فائدہ اٹھایا اور اپنی قابلیت اور ذہانت کی بدولت آگے بڑھتے چلے گئے۔ وہ ایک ایمان دار اور نیک صفت انسان ہی نہیں باشعور بھی تھے اور غربت و مالی تنگی نے انھیں زیادہ حسّاس بنا دیا تھا۔ ناؤروجی نے مفت تعلیم کو خود پر قرض تصوّر کیا اور سوچ لیا کہ آگے چل کر تعلیم سمیت ہر شعبے میں عوامی خدمت کا راستہ اپنائیں گے۔ انھوں نے نسل پرستی اور ہر قسم کے امتیازی سلوک کی مخالفت کرتے ہوئے ہندوستان میں سامراجی نظام کو چیلنج کیا۔

دادا بھائی ناؤروجی نوجوانی ہی سے عوام میں ان کے حقوق کے لیے شعور اور آگاہی پھیلانے کے ساتھ فلاحی کاموں میں مشغول ہوگئے۔ 1840ء کی دہائی کے آخر میں انھوں نے لڑکیوں کے لیے اسکول کھولے تو ہندوستان کا قدامت پسند طبقہ ان کے خلاف ہوگیا، لیکن انھوں نے اس کی پروا نہ کی۔ ان کی اسی ثابت قدمی اور خلوص کا نتیجہ تھا کہ بڑی تعداد میں طالبات اسکول آنے لگیں۔ ناؤروجی کا شمار ان مثالی ہندوستانیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس زمانے میں صنفی مساوات پر بات کی اور کہا کہ دنیا میں عورت کو بھی مردوں کی طرح تمام حقوق حاصل ہیں اور وہ ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کرنے کا حق رکھتی ہیں۔ انھوں نے برطانیہ میں بھی عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور وہاں بھی باشعور لوگوں نے ان کی حمایت کی۔

1901ء میں دادا بھائی ناؤروجی کی کتاب Poverty and Un-British Rule in India شایع ہوئی جس نے برطانوی سیاست دانوں اور افسر شاہی کو گویا مشتعل کردیا، انھوں نے اس کتاب میں تفصیلی وضاحت دی کہ نوآبادیاتی نظام میں کیسے ہندوستان کی دولت کو برطانیہ منتقل کیا جارہا ہے جب کہ ہندوستان میں غربت پنپ رہی ہے۔

1855ء میں ناؤروجی پہلی مرتبہ برطانیہ گئے تھے جہاں ہر طبقہ کی خوش حالی دیکھنے کے بعد ہندوستانی عوام کے حالات پر غور کیا اور اس کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ اس کے لیے معاشی جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے تجزیہ کرکے بتایا کہ برطانیہ ہندوستانیوں سے مخلص نہیں اور انھیں قحط کے عفریت اور دیگر مسائل کے ساتھ غربت کی چکّی میں‌ جھونک رہا ہے جس پر برطانیہ کی جانب سے انھیں‌ باغی اور سرکش کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن ان کی یہ بات خاص و عام تک پہنچی اور لوگوں نے ناؤروجی کی حمایت کی۔ ناؤروجی نے محنت کش طبقے کا ساتھ دیا، تعلیم اور دیگر شعبوں سمیت انتخابات میں عورتوں‌ کے حقِ رائے دہندگی کے لیے آواز اٹھائی اور ہندوستان میں فوری طور پر مثالی اور عوام دوست اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس پر برطانیہ کے سنجیدہ طبقات ان کے طرف دار ہوئے اور سیاسی میدان میں ان کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ تاہم دادا بھائی ناؤروجی نے اشرافیہ اور بالخصوص تخت اور اس کے وفاداروں کو مشتعل کردیا تھا۔ وہ انھیں اپنا دشمن سمجھنے لگے تھے اور برطانوی سیاست داں ان کے لیے تحقیر آمیز الفاظ استعمال کرتے تھے۔ جب ناؤروجی پارلیمان کے رکن کا انتخاب لڑ رہے تھے تو یہ مخالفت اور پروپیگنڈا زور پکڑ گیا، لیکن 1892ء میں اس تمام مخالفت کے باوجود ناؤروجی لندن میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوگئے۔ ایک موقع پر دادا بھائی ناؤروجی نے ایوان میں اپنا نظریہ اور مؤقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی طرزِ حکم رانی سفاکانہ ہے جس میں‌ ان کے ہم وطنوں کا استحصال اور انھیں‌ بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ اس کے بعد ناؤروجی 1895ء میں دوبارہ انتخابی میدان میں‌ اترے، مگر انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

ناؤروجی ایک ایسے راہ نما تھے جس نے اپنے سیاسی اور سماجی خدمت کے سفر میں‌ کئی بار نامساعد حالات، اپنوں کی مخالفت اور سخت رویّے کا بھی سامنا کیا، لیکن کسی بھی موقع پر گھبرا کر اپنا راستہ نہیں بدلا۔ انھیں ایک رجائیت پسند اور باہمّت شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں