شام میں دمشق یونیورسٹی سمیت تمام تعلیمی ادارے کھل گئے، جامعہ دمشق کے طلبہ نے جشن مناتے ہوئے بشار الاسد کا بڑا مجسمہ سڑک پر گھسیٹا۔
الجزیرہ کے مطابق شام کی عبوری حکومت کی جانب سے دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ اسکول اور یونیورسٹیاں بھی دوبارہ کھل گئی ہیں، جس کے بعد دمشق یونیورسٹی کے اندر تہوار کا ماحول دیکھا گیا، اور ہزاروں طلبہ نے جشن منایا۔
سوشل میڈیا پر دمشق یونیورسٹی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں طلبہ کا ہجوم بشار الاسد کا ایک بہت بڑا مجسمہ گرا کر رسیوں سے باندھ کر سڑک پر گھسیٹ رہے ہیں، طلبہ نے مجسمے پر کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں اور اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ دیگر نعرے لگاتے رہے۔
ایک طالب علم عمر نورالدین نے الجزیرہ کو بتایا ’’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کیمپس ہر شعبے کے طلبہ سے بھرا ہوا ہے، یہ روشنی ہم 50 سال کی آمریت کے بعد محسوس کر رہے ہیں، ہم پورے کیمپس میں جشن منا رہے ہیں۔‘‘
طالب علم نے کہا ’’ہم سب حکومت کے جانے کا خواب دیکھ رہے تھے، لیکن ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ اس طرح چند ہی دنوں میں گر جائے گی۔ میں ہمیشہ ملک چھوڑنے کا خواب دیکھتا تھا، لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ مجھے اپنے ملک میں رہنا چاہیے اور اس کی تعمیر نو میں مدد کرنی چاہیے۔‘‘
أسقطوا تمثال حافظ الأسد… احتفالات طلاب جامعة #دمشق في أول أيام الدراسة بعد إسقاط النظام pic.twitter.com/aV2Qfm0nua
— التلفزيون العربي (@AlarabyTV) December 15, 2024
ایک اور طالبہ فاطمہ سلیمان نے کہا ’’میں تعلیمی ادارے میں واپسی پر خوش ہوں، مثبت تبدیلی آئی ہے، اور میں بغیر کسی جانبداری اور اقربا پروری کے اپنے کام میں مشغول ہو سکتی ہوں، اور اپنی آواز بھی اٹھا سکتی ہوں۔‘‘
طلبہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ شام سے باہر بہت سے شامی باشندے فوری طور پر وطن واپس آنے کی کوشش کر رہے ہیں، اب شام اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔