شام میں ہونے والی خانہ جنگی نے ایک طرف تو ہزاروں لاکھوں افراد کی جانیں لے لیں، تو دوسری اس ملک کی ثقافت و روایات اور تاریخ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔
انہی میں سے ایک شام کا خوبصورت پھول ’دمسک‘ بھی ہے جسے تاریخ کا قدیم ترین گلاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس پھول کا تذکرہ مغربی شاعری و ادب میں بھی ملتا ہے جبکہ شیکسپیئر نے بھی 400 سال قبل اپنی تحاریر میں اس کا ذکر کیا۔
اپنی خوشبو اور خصوصیات کی وجہ سے مشہور یہ پھول شام میں بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا رہا جہاں سے اسے یورپ بھی بھیجا جاتا تھا۔
تاہم خانہ جنگی نے اس پھول اور اس کی تجارت سے جڑے چہروں کو مرجھا دیا۔
دمسک گلاب جس کی وجہ سے ہی شام کے دارالحکومت کا نام دمشق پڑا، شام میں تو اب تقریباً خاتمے کے قریب ہے، تاہم لبنان میں ایک مقام پر اپنی بہار دکھا رہا ہے۔
یہ مقام اس شامی جوڑے کا گھر ہے جو 5 سال قبل شام سے ہجرت کر کے لبنان آیا، کچھ عرصہ پناہ گزین کیمپ میں رہا اور پھر شام سے لائی اپنی تمام جمع پونچی خرچ کر کے اپنے لیے ایک چھت تعمیر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
نہلا الزردہ اور سلیم الذوق اپنے دو بچوں کے ساتھ ہجرت کرتے ہوئے اس گلاب کے بیج بھی لبنان لے آئے۔ یہاں انہوں نے اس گلاب کی افزائش شروع کی اور 5 سال بعد اب ان کے گھر کا پچھلا حصہ گلابوں سے بھر چکا ہے۔
یہ دونوں اس گلاب کو لبنان کے مختلف شہروں میں فروخت کرتے ہیں جہاں اس سے عرق گلاب بنایا جاتا ہے۔ وہ خود عرق گلاب نہیں بنا سکتے کیونکہ ان کے پاس مناسب سامان نہیں۔
شام کی خانہ جنگی نے اس تاریخی و خوبصورت پھول کو بری طرح متاثر کیا ہے، صرف دارالحکومت دمشق کے قریب ایک گاؤں ’نبک‘ میں، جو دمسک کی افزائش کے لیے مشہور ہے، ہر سال 80 ٹن ان گلابوں کی افزائش ہوتی تھی تاہم خانہ جنگی کے دوران یہ گھٹ کر 20 ٹن رہ گئی۔
نہلا اور سلیم پرامید ہیں کہ اپنی اس کوشش کے ذریعے وہ اپنی اس ثقافتی و تاریخی علامت کو بچانے اور پھر سے زندہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔