اشتہار

خطرناک اور ممنوعہ جانوروں کی فروخت کےلیے تشہیر غیرقانونی قرار

اشتہار

حیرت انگیز

ابوظبی : اماراتی حکام نے یو اے ای میں جنگلی جانوروں کی غیر قانونی فروخت کی تشہیر کرنے افراد پر 5 لاکھ درہم جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کے حکام نے خطرناک اور  غیر ملکی جانوروں کو بطور پالتو جانور غیر قانونی فروخت کےلیے ویب سائٹس کے ذریعے تشہیر کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کا عندیہ دے دیا۔

اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ اماراتی شہریوں نے مذکورہ جانور وں کی غیر قانونی فروخت کے خلاف کارروائی پر  اور  خطرناک اور ممنوعہ جانوروں کی فروخت کےلیے تشہیر کو غیرقانونی قرار دئیے جانے پر حکام کی حمایت کی ہے۔

- Advertisement -

یو اے ای کی وزارت ماحولیات کی جانب سے خطرناک اور غیر ملکی جانوروں کو گھر میں رکھنے کے نقصانات سے آگاہ کرنے کےلیے باقاعدہ مہم چلا رہے ہیں۔

مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق ان جانوروں میں شیر، چیتا، ٹائیگر، لومڑی، زہریلے سانپ اور دیگر شامل ہیں۔

اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو طویل مدتی قید کی سزا اور 50 ہزار درہم سے 5 لاکھ درہم تک جرمانے کی سزا کا سامنا کر پڑسکتا ہے۔

مزید پڑھیں : متحدہ عرب امارات، جنگلی جانوروں کو پالنے پر پابندی

خیال رہے کہ جنوری 2017 میں متحدہ عرب امارات کی حکومت کی جانب سے شیر اور چیتے جیسے جنگلی جانوروں کو بطور پالتو جانور رکھنے یا پالنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا اور ایسے تمام جانوروں کو انتظامیہ کے حوالے کرنے کا حکم جاری ہوا تھا۔

یاد رہے کہ گذشتہ برس جو قانون نافذ کیا گیا تھا اس کے تحت شیر چیتے یا کسی بھی قسم کے خطرناک جانوروں کو عوامی مقامات پر لانے یا گھر میں رکھنے والے افراد پر چھ ماہ جیل اور ایک لاکھ 36 ہزار ڈالر یعنی پانچ لاکھ درہم جرمانہ عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

نئے قانون کے تحت تمام طرح کے جنگلی اور پالتو مگر خطرناک جانوروں کی خرید وفروخت، ان کی ملکیت اور تشہیر پر پابندی ہوگی۔‘ان جانوروں کو اب صرف چڑیا گھروں، وائلڈ لائف پارک، سرکس اور بریڈنگ اینڈ ریسرچ سینٹرز میں رکھا جائے گا۔

اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ حکام کو متحدہ عرب امارات کے شہریوں میں بڑھتے ہوئے اس خطرناک رجحان سے عام لوگوں کی پریشانیاں اور لاحق خطرات پر شدید تشویش تھی جس کے سدباب کے لیے یہ قانون لایا گیا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں