جمعہ, دسمبر 20, 2024
اشتہار

ڈارک ویب پر لیک ویڈیوز کا کاروبار کیسے ہوتا ہے؟ اہم انکشافات

اشتہار

حیرت انگیز

آج کل لوگ بہت سارے ایپس ڈاؤن لوڈ کرتے ہوئے اور کئی طرح کے فلٹرز کا بھی استعمال کرتے ہیں تاہم یہ ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔

جب صارف کوئی ایپ ڈاؤن لوڈ کررہا ہوتا ہے تو اس سے اس کی گیلری اور موبائل کے دیگر کنٹرولنگ آپشن تک رسائی مانگی جاتی ہے جو چارو ناچار صارف کو ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے کےلیے دینی ہی پڑتی ہے اس سے صارف کے موبائل کی سیکیورٹی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

اے آر وائی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے معروف اینکر پرسن اقرار الحسن نے ڈارک ویب کے رول کے حوالے سے انکشافات کیے اور بتایا کہ لوگوں کے موبائل تک رسائی حاصل کرکے کیسے ان کی پرسنل تصاویر نکال لی جاتی ہیں اور ان کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

- Advertisement -

اقرار الحسن نے کہا کہ غیر ضروی ایپس کا استعمال خطرے سے خالی نہیں اگر گیلری میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قابل اعتراض ہو تو آپ نے نقصان کے امکان کو کم کردیا ہے۔

اینکرپرسن نے بتایا کہ صارف اپنے فون کے کیمرے اور گیلری کو احتیاط سے استعمال کرنا شروع کرے تو اس کے نقصان کا اندیشہ کم ہوجائے گا، مطلب یہ کہ اگر کوئی اس طرح کی قابل اعتراض چیز موجود ہوگی ہی نہیں تو اگر کوئی ایپ صارف کے موبائل ڈیٹا تک رسائی حاصل کربھی لے تو وہ اسے لیک نہیں کرے گی۔

میں ڈرتا ہوں اس وقت سے کوئی ایسی لیک سامنے آئے جس میں لوگوں کے ذاتی نوعیت کا ڈیٹا لیک ہو، ایک دھماکہ خیز چیز کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ صارف کے موبائل سے عام تصاویر نکال کر اسے ڈیپ فیک ویڈیو کی مدد سے ایڈٹ کرکے بھی اس کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اقرار نے کہا کہ اگر ہمیں مدد کے حوالے سے روزانہ ہزار پیغامات آتے ہیں تو ان میں سے 980 کا تعلق اس موبائل فون اور اس سے بنی ویڈیوز سے ہوتا ہے، اس میں بلیک میلنگ اور اس طرح کے دیگر معاملات کا بتایا جاتا ہے۔

اینکر نے لرزہ خیز انکشاف کیا کہ 98 فیصد کال لڑکیوں اور خواتین کی آرہی ہوتی ہیں کہ ہم بلیک میل ہورہے ہیں خدا کا واسطہ ہمیں بچا لیں ہماری زندگی چلی جائیگی، بہت سارے کیسز میں مرد حضرات بھی بلیک میل ہورہے ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ قرضے دینے والی مختلف ایپس بھی لوگوں کے لیے کافی مشکالت کا باعث بنی ہوئی ہیں اسٹیٹ بینک کے ایکشن لینے کے باوجود ان ایپس کا کاروبار جاری ہے، یہ کال سینٹرز کا پوراد دھندہ ہے جس میں پہلے قرض لینے والے کو کال کیا جاتا ہے۔

پھر اس کے اہلخانہ اور بہنوں اور رشتہ داروں تک کو کال کی جاتی ہے، قرض ایپس کی وجہ سے بھی خودکشی کے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں۔

اقرار الحسن نے کہا کہ لوگ جو آئی ڈی کارڈز کی فوٹو کاپی بینک یا کورٹ وغیرہ میں جاکر دیتے ہیں باقاعدہ انھیں بھی بیچا جارہا ہے، لوگ دوسرے لوگوں کے واٹس نمبر کو بیچ رہے ہیں، مثلاً میں کہوں کہ مجھے اس نمبر کا واٹس ایپ نمبر چاہیے تو وہ چاہے آپ کے استعمال میں ہو وہ مجھے بھی بنا کردے دیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ سیلیکون کے ایک پیڈ کے اوپر فراڈیے لوگوں کے انگوٹھے کا پرنٹ لے لیتے ہیں اور اسے بعد میں فراڈ کرنے والے حضرات کہیں بھی استعمال کرسکتے ہیں اس نے بینکنگ نظام کو کافی متاثر کیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں