نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے گزشتہ روز بڑی کارروائی کرتے ہوئے بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیو بنانے والے عالمی نیٹ ورک کو بے نقاب کیا تھا۔
نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے مظفر گڑھ میں بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیو بنانے والا گینگ پکڑا تھا اور اس کارروائی میں دو ملزمان گرفتار اور 10 متاثرہ بچوں کو بازیاب کرایا گیا تھا۔
اس سارے گھناؤنے دھندے کا سرغنہ ایک جرمن باشندہ نکلا، جس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ پاکستانی حکام نے اس کے ریڈ وارنٹ جاری کرانے کے لیے نہ صرف انٹرپول سے رجوع کیا ہے بلکہ فارن آفس اور جرمن حکام سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔
چھاپے کے دوران پورنو گرافی اسٹوڈیو سے 800 سے زائد شرمناک ویڈیوز برآمد ہوئیں۔ گینگ نے 6 سے 10 سال کی عمر کے 50 بچوں کو شکار بنایا۔ یہ اخلاق باختہ ویڈیوز ڈارک ویب پر 100 سے 500 ڈالرز میں فروخت کی گئیں۔
اس مکروہ دھندے کے گروہ کا سرغنہ جرمن باشندہ پاکستان کیسے آیا؟ کون کون یہاں سہولت کار تھا؟ اتنے عرصہ خاموشی سےکیسے یہ سب گندا کام چلتا رہا اور کم سن بچوں کو کیسے یہ گروپ اپنے جال میں پھنساتا تھا۔ اس حوالے سے سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔
اے آر وائی نیوز ملتان کے بیورو چیف یاسر شیخ اس حوالے سےسنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ عالمی چائلڈ پورنو گرافی گینگ کا سربراہ جرمن باشندہ پاکستان میں ایک سیاح کے طور پر آیا اور گزشتہ روز جو دو مرکزی ملزمنا جنید اور عرفان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جرمن شہری جنید کے گھر میں آ کر رہتا تھا۔ اس نے یہاں آکر اس مکروہ کام کے لے اسٹوڈیو تیار کرایا اور مقامی افراد کو ٹریننگ دے کر واپس چلا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ چائلڈ پورنو گرافی کے لیے اسٹوڈیو مظفر گڑھ کے نواحی علاقے کوٹ ادو میں بنایا گیا تھا اور ملزمان نے اپنی رہائشگاہ سے متصل ایک بڑے ہال نما کمرے کو جدید اسٹوڈیو میں تبدیل کیا تھا۔ وہاں ڈیجیٹل وائرلیس راؤٹرز، جدید کیمرے، لیپ ٹاپ سمیت ہر وہ سہولت موجود تھی جو کسی بھی بہترین اسٹوڈیو میں ہوتے ہیں۔
یاسر شیخ نے اس حوالے سے آج ہونے والی اپ ڈیٹ سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ آج مزید 6 بچوں کو بازیاب کرایا گیا ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کے والدین کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔ جس کے بعد ان بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا گیا ہے جب کہ اس گروپ کے مزید چار معاونین کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ سارا کام انتہائی محفوظ طریقے سے انڈر کارپٹ ہوتا تھا۔ ساری ٹرانزیکشن گرفتار ملزم جنید کے بھائی کے اکاؤنٹ کے ذریعہ ہوتی تھی، جو بیرون ملک مقیم ہے۔
ڈارک ویب نیٹ ورک نے اس مکروہ دھندے کے لیے 6 سے 10 سال کی عمر کے بچوں کا استعمال کیا۔ اس گروپ نے یو ٹیوب پر کڈز گیمنگ چینل بنائے ہوئے تھے اور ان ایپس کے ذریعہ بچوں کو اپنے جال میں پھنساتے تھے۔
اس کے علاوہ یہ گروہ ایسے بڑے گھروں سے ملازم بچوں کو اپنے مکروہ کام کے لیے استعمال کرتا تھا، جن کے والدین بچوں کو دوسروں کے گھروں میں کام کرنے کے لیے چھوڑ جاتے تھے اور پھر مہینوں رابطہ نہیں کرتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ ایسے بھی واقعات ہوئے کہ گروپ کے لوگ خود غریب والدین کو پیسے دے کر بچے اپنے ساتھ لے گئے لیکن انہیں گھروں میں نوکری دلانے کا جھانسہ دلایا اور وہاں لے جا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
یاسر شیخ نے بتایا کہ یہ پورا آپریشن ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالغفار کی قیادت میں ہوا اور این سی سی آئی نے مزید 11 کے قریب فحاشی کے مراکز تلاش کر لیے ہیں جہاں سرجیکل آپریشن کیے جا رہے ہیں۔