1950ء میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے محکمۂ انکم ٹیکس میں ملازمت اختیار کرنے والے عبدالعزیز خالد نے اپنی دفتری ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے تک ترقّی پائی، لیکن ساتھ ہی علم و ادب سے بھی جڑے رہے اور تخلیقی سفر میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
آج اردو کے ممتاز شاعر، ماہر مترجم عبدالعزیز خالد کی برسی ہے۔ وہ سنہ 2010 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے اردو شاعری کو عربی ادبیات سے ہم آمیز کیا اور اس صنفِ سخن میں مشرقی روح اور طرزِ بیاں کو نہایت خوب صورتی سے سموتے ہوئے تازگی اور جاودانی عطا کی۔
14 جنوری 1927ء کو عبدالعزیز خالد تحصیل نکو در ضلع جالندھر کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التّحصیل تھے۔ اس دور میں انھوں نے کالج کے مجلّے کی ادارت بھی کی تھی۔ بعد میں مقابلے کا امتحان دیا اور سرکاری ملازمت کے ساتھ ادبی مشاغل جاری رکھے۔ اس سفر میں ان کی متعدد تصانیف منظرِ عام پر آئیں۔
عبد العزیز خالد کا شمار ان اہلِ قلم حضرات میں ہوتا ہے، جو متعدد زبانیں جانتے تھے۔ ان میں اردو، عربی، فارسی، سنسکرت اور انگریزی شامل ہیں۔ اپنی اسی قابلیت کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے کئی غیر ملکی شعرا کے کلام کا اردو میں ترجمہ کیا۔
عبدالعزیز خالد کی تصانیف میں ماتم یک شہرِ آرزو، زرِ داغِ دل، خروشِ خم، فارقلیط، غبارِ شبنم، سرابِ ساحل، کلکِ موج، برگِ خزاں، دکانِ شیشہ گر، کفِ دریا، غزلُ الغزلات کے علاوہ سیفو، ٹیگور اور ہوچی منہ کی نظموں کے تراجم شامل ہیں۔
ادبی میدان میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
پھولی ہے شفق گو کہ ابھی شام نہیں ہے
ہے دل میں وہ غم جس کا کوئی نام نہیں ہے
کس کو نہیں کوتاہیٔ قسمت کی شکایت
کس کو گلۂ گردشِ ایّام نہیں ہے
افلاک کے سائے تلے ایسا بھی ہے کوئی
جو صید زبوں مایۂ آلام نہیں ہے
لفظوں کے در و بست پہ ہر چند ہو قادر
شاعر نہیں جو صاحبِ الہام نہیں ہے
ہر بات ہے خالدؔ میں پسندیدہ و مطبوع
اک پیرویٔ رسم و رہِ عام نہیں ہے