اتوار, فروری 2, 2025
اشتہار

معروف محقق اور مصنف ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری

اشتہار

حیرت انگیز

آج پاکستان کے ایک معروف اہل قلم ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی برسی ہے۔ 2 فروری 2021ء کو انتقال کرجانے والے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری محقّق، سوانح و تذکرہ نگار کی حیثیت سے مشہور تھے جن کی تصانیف اردو زبان و ادب کا سرمایہ ہیں۔

ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا خاص میدان تحقیق تھا۔ ہندوستان کے صاحبِ طرز ادیب اور سیاسی راہ نما مولانا ابوالکلام آزادؔ کی شخصیت، اُن کے افکار اور علمی و ادبی کارناموں پر ڈاکٹر صاحب کے کام کو سند تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر انھیں ‘آزاد شناس’ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں دنیائے ادب اور سیاست کی متذکرہ نابغۂ روزگار شخصیت کی زندگی اور ان کے تخلیقی سفر کے مختلف پہلوؤں‌ پر بے مثال کام کیا۔

ڈاکٹر ابو سلمان نے ابتدائی تعلیم شاہ جہان پور سے مکمل کی۔ حفظِ قرآن کے ساتھ ابتدائی عربی اور فارسی کا درس لیا۔ تقسیم کے بعد 1950ء میں پاکستان آگئے اور کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے (اُردو) اور 1980ء میں سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا سنِ پیدائش 1940ء ہے اور وطن شاہ جہاں پور (روہیل کھنڈ، یوپی)۔ والد محمد حسین خاں نے ان کا نام تصدق حسین خاں رکھا۔ لیکن علم و ادب کی دنیا میں وہ ابو سلمان الہندی کے نام سے متعارف ہوئے اور بعد میں الہندی کی جگہ ان کے آبائی علاقے کا نام جڑ گیا۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے حامد بدایونی کالج، کراچی میں تدریس کے فرائض‌ بھی انجام دیے۔

پاک و ہند کی سیاسی تاریخ، جدوجہد کی آزادی کی تحریکات، تنظیمات، شخصیات اور ان تحاریک کے نشیب و فراز ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے خاص میدان رہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم ’’مقتدرہ قومی زبان پاکستان‘‘ سے بھی منسلک رہے۔ ’مقتدرہ‘‘ جب کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو اس سے الگ ہوگئے تھے۔

1986ء کے آخر میں کراچی کے حالات نے دگرگوں صورت اختیار کرلی تھی۔ ڈاکٹر ابوسلمان کا گھر اور کتب خانہ ہنگاموں کی نذر ہوا، تو وہ بجھ کر رہ گئے اور خود کو گھر تک محصور کرلیا تھا۔ بہت کم کسی محفل اور علمی تقریب میں جاتے تھے، لیکن گھر میں رہ کر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے اور اپنے تمام معمولاتِ زندگی اور معاشرتی تقاضوں کو نبھاتے ہوئے بے مثال علمی کارنامے انجام دیے۔

مولانا آزاد کے علاوہ اُن کی محبوب شخصیات میں مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا مناظر احسن گیلانی شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے موضوعات پر نہایت معیاری کتب یادگار چھوڑی ہیں‌ اور یہ ان کی محنت و لگن کا نتیجہ ہے کہ تحقیقی میدان میں ضروری مآخذ اور مستند حوالہ جات کے ساتھ انھوں نے مواد یک جا کیا ہے۔

1957 ء تا 1974ء ابو سلمان کے سیکڑوں مضامین پاکستان اور ہندوستان کے مختلف رسائل میں شایع ہوئے۔ ان کے کئی مضامین اور مقالے کتابی شکل میں موجود ہیں۔ ان کی چند کتابوں میں‌ "اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ، اشفاق اللہ خاں شہید، افاداتِ آزاد، تحریکِ نظمِ جماعت،مولانا محمد علی اور ان کی صحافت، ابو الکلام و عبد الماجد، علامہ اقبال اور مولانا محمد علی، پاکستان کے اردو اخبارات و رسائل، مسلم افکارِ سیاست” کے نام شامل ہیں۔

پروفیسر ابوسلمان شاہجہاں پوری کے قلم سے نکلی کئی کتابیں اہلِ علم و دانش سے خراجِ تحسین وصول کرچکی ہیں۔ وہ اپنے قلمی سفر کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ میری پہلی تحریر حضرت آزاد کی وفات پر شائع ہوئی تھی، اس کے بعد لکھتا ہی چلا گیا، لکھنے پڑھنے کے سوا نہ کوئی شوق ہے اور نہ کوئی کام آتا ہے، میرے کاموں پر بہت تحسین و آفرین ہوئی اور شدید ردعمل بھی آیا، لیکن میں نے اپنے کسی ردعمل کا جواب نہیں دیا، خود ہی سوچا کہ کہیں کسی کے بارے خلاف تہذیب یا خلاف واقعہ کوئی بات تو نہیں نکل گئی ہے، الحمد للّٰہ کہ ایسا کبھی نہیں ہونے پایا، بعض مضامین و مباحث میں اُسلوب بیان کی سختی کو محسوس کرتا ہوں لیکن اس کے لئے مجبور ہوں کہ یہ میرے اختیار کی بات نہیں۔ مجھے آج تک اپنی تالیفات کو گننے کا موقع نہیں ملا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں