آج اردو زبان و ادب میں ممتاز، صاحبِ اسلوب ادیب اور صفِ اوّل کے افسانہ نگار ابوالفضل صدیقی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1987ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔
ابوالفضل صدیقی کا تعلق بدایوں سے تھا جہاں وہ 1908ء میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔ بٹوارے سے پہلے ہی ان کا تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور پاکستان آنے کے بعد انھوں نے ادب کی دنیا میں نام و مقام پایا۔
1932ء میں وہ افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے تھے۔ ان کے ہم عصروں میں سجاد حیدر یلدرم، اختر حسین رائے پوری، غلام عباس، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی شامل ہیں جن کے درمیان ابوالفضل صدیقی نے بطور ادیب اپنی پہچان بنائی اور افسانہ نگاری میں ممتاز ہوئے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات اور طرزِ نگارش جداگانہ تھا جس پر انھیں بے حد سراہا گیا۔
ابوالفضل صدیقی کے افسانوی مجموعوں میں ستاروں کی چال، احرام، آئینہ، انصاف، زخم دل جب کہ ناولوں میں سرور اور ترنگ اور ناولٹ کے مجموعوں میں دن ڈھلے، گلاب خاص اور دفینہ شامل ہیں۔
انھوں نے خاکہ نگاری میں بھی اپنے دل نشیں طرزِ نگارش سے سحر پھونکا۔ ’’عہد ساز لوگ‘‘ کے نام سے ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ بہت پسند کیا گیا جب کہ ’’کہاں کے دیر و حرم‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔