آج ترقّی پسند فکر کے اہم شاعر، افسانہ نگار اور نقّاد اختر انصاری دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 5 اکتوبر 1988ء کو انتقال کرگئے تھے
ان کی شاعری، تنقید اور افسانے ان کی ترقی پسند فکر اور جدوجہد کا عکس ہیں۔ بھارت سے تعلق رکھنے والے اختر انصاری دہلوی اپنی تخلیقات میں گہرے طنز اور شدّتِ جذبات کے اظہار کے لیے مشہور ہیں۔
’نغمۂ روح‘ ’آبگینے‘ ’ٹیڑھی زمین‘ ’سرور جاں‘ (شاعری) ’اندھی دنیا اور دوسرے افسانے‘ ، ’نازو اور دوسرے افسانے‘، ’حالی اور نیا تنقیدی شعور‘، ’افادی ادب‘ (تنقید) وغیرہ ان کی تصانیف ہیں۔
اختر انصاری یکم اکتوبر 1909ء کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد ایوب انصاری تھا، لیکن ادب کی دنیا میں الگ نام سے پہچانے گئے۔ والد چوں کہ ترکِ سکونت کے بعد دہلی آگئے تھے، سو انھوں نے خود کو دہلوی کہلوانا پسند کیا۔ اختر نے اینگلو عربک اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ دہلی یونیورسٹی سے بی اے کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کرنے کے بعد یونیورسٹی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔
1947ء میں اردو میں ایم اے کرنے کے بعد کچھ عرصے تک شعبۂ اردو میں لکچرر رہے۔ بعد میں ٹرینگ کالج میں ملازمت اختیار کی۔ ان کے دو مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
شباب نام ہے اس جاں نواز لمحے کا
جب آدمی کو یہ محسوس ہو جواں ہوں میں
اختر انصاری دہلوی کی دو کتابیں ایک قدم اور سہی اور اردو افسانہ، بنیادی اور تشکیلی مسائل بعد از مرگ شائع ہوئیں۔