علاّمہ شبلی نعمانی کے اسلوبِ نگارش کا یہی طرّۂ امتیاز ہے کہ انھوں نے خشک اور بے کیف موضوعات میں بھی انشا پردازی سے ایسی شان پیدا کردی کہ اُن کی تحریریں دلآویز اور دل نشیں اور اثر انگیز ہوگئیں۔
انھیں اردو تنقید کے بانیوں میں نمایاں مقام حاصل ہے شبلی نعمانی ایک مؤرخ، محقّق، ادیب اور شاعر تھے۔ سیرت و سوانح نگاری ان کا خاص میدان تھا۔ وہ ایک عالمِ دین اور مفکّر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔
علّامہ شبلی نعمانی کو ان کی تصانیف اور ندوۃُ العلما کے قیام کی کوششوں کے سبب ہندوستان میں بڑی شہرت ملی۔ دارُالمصنّفین، شبلی اکیڈمی ایک علمی و تحقیقی ادارہ ہے جو علّامہ شبلی نعمانی کا خواب تھا، لیکن وہ اس کی عملی صورت دیکھنے سے پہلے ہی دنیا سے چلے گئے۔ وہ اعظم گڑھ میں آسودۂ خاک ہیں۔ 18 نومبر 1914ء کو جہانِ علم و ادب کا یہ تابندہ ستارہ ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ آج شبلی نعمانی کی برسی ہے۔
ان کا اصل نام محمد شبلی تھا۔ حضرت امام ابو حنیفہ کی نسبت کو اپنے لیے باعثِ برکت و اعزاز جانتے ہوئے انھوں نے اپنا نام شبلی نعمانی رکھا۔ 1857ء میں اعظم گڑھ کے ایک نواحی قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کی تربیت نہایت عمدہ ماحول میں ہوئی اور اپنے دور کی اعلیٰ ترین درس گاہوں میں تعلیم حاصل کی۔
شبلی نے اپنے وقت کے جیّد علما سے فارسی، عربی حدیث و فقہ اور دیگر اسلامی علوم کی تحصیل کے بعد ایک ملازمت اختیار کی اور بعد میں وکالت کا پیشہ اپنایا، لیکن ناکام رہے اور پھر علی گڑھ میں سر سیّد کے کالج میں عربی کے معلّم کی ملازمت اختیار کرلی۔ یہاں وہ سرسیّد کے بہت قریب آگئے اور یہیں سے شبلی کی کام یابیوں کا سفر شروع ہوا۔
علاّمہ شبلی کے دل میں حمیّتِ اسلامی کا جو دریا موجزن تھا، اُس سے مغلوب ہوکر انھوں نے ’المامون‘، ’الفاروق‘، ’سیرۃ النبی‘ جیسی بلند پایہ کتب تصنیف کیں، سرسیّد احمد خان اور دیگر اہلِ علم و فن کی صحبت نے شبلی کی فکر کو وسعت دی اور ان کے ذوق کو نکھارا اور وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔
شبلیؔ نے اس زمانے میں مغربی تہذیب اور یورپ کے کارناموں کا شور سننے والوں کو تاریخِ اسلام کے تاب ناک پہلوؤں سے متعارف کرایا اور انھیں ان کی عظمتِ رفتہ کا احساس دلانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں عالمِ اسلام کی نام وَر شخصیات کی سیرت و سواںح، علم و فنون کے تذکرے کو کتابی شکل میں جامع و مستند معلومات کے ساتھ اپنے سحر انگیز اسلوب میں قارئین تک پہنچایا۔
سیرت النّبی ان کی وہ تصنیف ہے جس کا بہت شہرہ ہوا، لیکن شبلی کی زندگی میں اس کی صرف ایک جلد ہی شایع ہوسکی تھی۔ اس کام کو ان کے ایک لائق شاگرد سید سلیمان ندوی نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ علّامہ شبلی نعمانی کی دیگر تصانیف میں شعرُ العجم، موازنۂ انیس و دبیر اور الغزالی بہت مشہور ہیں۔