تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

بش سینئر کا آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم اور ‘کویت کی آزادی’

بش سینئر کے دورِ صدارت کو اُن کی خارجہ پالیسی کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ امریکا کے41 ویں صدر تھے۔ ان کے دور میں مشرقی یورپ میں کمیونزم دَم توڑ رہا تھا اور روسی ریاستوں کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد امریکا دنیا کی واحد سپر پاور بن کر ابھرا۔

جارج ہربرٹ واکر بُش جو بش سینئر مشہور ہیں، ان کی قیادت میں حکومتی پالیسیوں نے دنیا کو امریکا پر اعتماد کرنے پر آمادہ کیا۔ بش سینئر کا دورِ صدارت 1989ء سے 1993ء تک رہا۔ بعد میں ان کے بیٹے بش جونیئر بھی امریکا کے صدر بنے۔

30 نومبر 2018ء کو 94 سال کی عمر میں وفات پانے والے بش سینئر کے دور میں‌ آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم بھی کیا گیا تھا۔ یہ آپریشن عرب دنیا میں‌ تیل کی دولت سے مالا مال اور چھوٹے سے آزاد ملک کویت کے شہریوں کو تحفظ دینے اور وہاں پانچ ماہ سے جاری عراقی قبضہ چھڑانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ عراق کے خلاف امریکا کی قیادت میں اتحادی ممالک نے یہ جنگ لڑی تھی۔

آپریشن ڈیزرٹ اسٹورم 40 دن جاری رہا جس کے بعد عراقی فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اسے امریکا نے کویت کی آزادی کی جنگ کہا، لیکن اس سے قبل واشنگٹن میں عراقی قبضے کے دوران امریکا کی جانب سے اس محاذ کو کھولنے پر سیاسی تنازع جاری رہا تھا۔ عرب گروپوں میں عراق کے قبضے کو ختم کرانے پر بحث و مباحثہ ہو رہا تھا اور امریکی حملے سے چند دن قبل ہی صدام حسین نے کویت سے مشروط انخلا کا اعلان کیا تھا، لیکن صدر بش نے کانگریس سے جنگ کی منظوری لے لی اور جنگ شروع ہوگئی۔

بش سینئر کے دور کے اس آپریشن نے عرب خطّے اور دنیا پر دور رَس اثرات مرتب کیے جب کہ دوسری جانب عظیم روس بکھرنے کو تھا اور امریکا دنیا کی قیادت کے لیے تیّار۔

ریپبلکن پارٹی کے بش سینئر کو امریکا کا کام یاب سیاست دان اور ایک منجھا ہوا سفارت کار کہا جاتا رہا، لیکن اپنے دورِ‌ حکومت میں بالخصوص کام یاب خارجہ پالیسیوں کے باوجود انھیں 1992ء کے صدارتی انتخابات میں‌ بل کلنٹن کے ہاتھوں شکست ہوگئی تھی۔ اس کا ایک سبب بش سینئر کے دور میں ابتر داخلی معاشی صورتِ حال تھی۔

کویت کی آزادی کی جنگ کے بعد امریکی عوام میں ان کی مقبولیت 89 فی صد کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی تھی، لیکن چند سال گزرنے کے بعد کویت عراق تنازع میں امریکا کی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا، کیوں کہ آپریشن صرف کویت سے عراقی افواج کی بے دخلی تک محدود رکھا گیا تھا اور امریکا نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

1924ء میں پیدا ہونے والے بش سینئر کا آبائی تعلق شمالی ریاست کنیٹی کٹ سے تھا۔ بعد میں ان کا خاندان ٹیکساس منتقل ہوگیا جہاں اپنی کاروباری سرگرمیوں کا آغاز کیا اور آئل کمپنی کی بنیاد رکھی۔

ان کے والد پریسکاٹ بش 1952ء سے 1963ء تک اپنے آبائی علاقے کی نشست پر سینیٹر بھی رہے تھے۔ بش سینئر 1964ء میں ریپبلکن کے پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھنے سے قبل ٹیکساس میں تیل اور پیٹرول کے بڑے تاجر تھے۔

بش سینئر نے 941ء میں امریکی بحری اڈّے پرل ہاربر پر جاپانی فضائیہ کے حملے کے بعد خود کو بحریہ میں رضا کار کے طور پر پیش کیا اور دوسری جنگِ عظیم میں فضائیہ کا حصّہ بنے۔ انھوں نے باربرا پیئرس سے شادی کی تھی۔

جارج ڈبلیو بش امریکا کے صدر بننے سے قبل رونالڈ ریگن کے دور میں آٹھ سال تک نائب صدر بھی رہے۔ یوں وہ عملی سیاست اور منصب و اختیار کا وسیع تجربہ بھی رکھتے تھے۔

1976ء میں جارج بش سینئر سینٹرل انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ایک سال تک خدمات انجام دیں جب کہ 1971ء سے 1973ء تک وہ اقوامِ متحدہ میں امریکا کے مندوب کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔

Comments

- Advertisement -