12 فروری 1926ء کو اردو کے مشہور شاعر پنڈت برج نرائن چکبست لکھنوی وفات پاگئے تھے۔ ان کے متعدد اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہوا۔
چکبست لکھنوی کا تعلق فیض آباد سے تھا جہاں انھوں نے 1882ء میں آنکھ کھولی۔ اوائلِ عمر میں لکھنؤ آگئے جہاں قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا آغاز کیا۔ چکبست نے ستارۂ صبح کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا تھا۔
وہ شاعری ہی نہیں نثر پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ چکبست نے اپنے زمانے کے کسی استاد سے اصلاح نہیں لی اور کثرتِ مطالعہ کے ساتھ مشق جاری رکھی اور اردو ادب میں نام بنایا۔ انھوں نے غزل گوئی کے علاوہ نظم میں بھی اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کیا۔ ان کا مجموعہ کلام صبح وطن کے نام سے شائع ہوا۔
چکبست کا یہ شعر بھی مشہور ہوا۔
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشاں ہونا
یہاں ہم چکبست کی ایک غزل آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔
نہ کوئی دوست، دشمن ہو شریکِ درد و غم میرا
سلامت میری گردن پر رہے، بارِ الم میرا
لکھا یہ داورِ محشر نے میری فردِ عصیاں پر
یہ وہ بندہ ہے جس پر ناز کرتا ہے کرم میرا
کہا غنچہ نے ہنس کر واہ کیا نیرنگِ عالم ہے
وجودِ گل جسے سمجھے ہیں سب ہے وہ عدم میرا
دلِ احباب میں گھر ہے، شگفتہ رہتی ہے خاطر
یہی جنّت ہے میری اور یہی باغِ ارم میرا
کھڑی تھیں راستہ روکے ہوئے لاکھوں تمنائیں
شہیدِ یاس ہوں، نکلا ہے کس مشکل سے دم میرا
خدا نے علم بخشا ہے، ادب احباب کرتے ہیں
یہی دولت ہے میری اور یہی جاہ و حشم میرا