کراچی میں پاپوش کے قبرستان میں دلاور فگار کی قبر کے کتبے پر ان کا یومِ وفات 21 جنوری 1998ء درج ہے۔ یہ وہی دلاور فگار ہیں جنھیں شہنشاہِ طنز و مزاح کہا جاتا ہے۔ آج اردو کے مقبول مزاح گو شاعر کی برسی ہے۔
اردو شاعری میں طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار نے نہایت خوبی سے عام آدمی کے مسائل کو قہقہوں کی پوشاک پہناتے ہوئے اربابِ حلّ و عقد پر طنز کے تیر برسائے اور ایک تخلیق کار کی حیثیت سے اپنی ذمے داری پوری کی۔ دلاور فگار کا مزاح سخت اور کھردرا نہیں بلکہ یہ خوش دلی اور خوش مذاقی پر منبی ہے۔ ان کے طنزیہ اشعار بھی تہذیب اور شرافت کے پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔ ان کا یہ مشہور قطعہ ملاحظہ کیجیے۔
حاکمِ رشوت ستاں فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت، چھوٹ جا
میں بتاؤں تجھ کو تدبیرِ رہائی، مجھ سے پوچھ
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ انھوں نے شباب بدایون کے تخلّص سے سنجیدہ شاعری بھی کی اور ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ 1954ء شایع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام حادثہ تھا۔ بعد میں انھوں نے تخلّص ہی نہیں اپنا ذوق و طرزِ شاعری ہی بدل لیا اور طنز و مزاح کے میدان میں دلاور فگار مشہور ہوئے۔ وہ اس وقت تک بھارت میں مقیم تھے۔
ان کا خاندانی نام دلاور حسین تھا۔ 1928ء میں بدایوں کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ 1942ء میں ہائی اسکول کے امتحان کام یاب ہوئے۔ والد مقامی اسلامیہ اسکول میں استاد تھے۔ دلاور حسین اس وقت اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کرسکے لیکن بعد میں ایم اے کے سند یافتہ ہوگئے۔ کم عمر تھے جب ایک ڈاک خانے میں کام کرنے لگے تھے۔ اسی زمانے میں علم و ادب کا شوق ہوا اور شاعری شروع کی اور بدایوں کے مشاعروں میں پہچان بنانے لگے مگر شباب بدایوں کے نام سے۔ وہ لہک لہک کر اپنی غزلیں سنایا کرتے تھے۔
دس جماعتیں پڑھ لینے کے چار سال بعد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور بریلی کالج گئے جہاں سے معلّمی کا ڈپلومہ بھی لے لیا اور والد کے سایۂ عاطفت سے محرومی کے بعد 1950ء میں ٹیچنگ شروع کردی۔ 1953ء میں بی اے کیا اور اس کے بعد معاشیات میں ایم اے۔ 1966ء انھوں نے اردو میں ایم اے کیا اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔ یہ ان کا بھارت میں تعلیمی اور ادبی سفر تھا جس کے بعد وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور کراچی میں مقیم ہوئے۔
کراچی میں دلاور فگار کو عبد اﷲ ہارون کالج میں بحیثیت لیکچرار اردو پڑھانے کا موقع ملا۔ مشہور شاعر فیض احمد فیض اس وقت وہاں پرنسپل تھے۔ شہرِ قائد کے مشاعروں میں دلاور فگار شریک ہوتے اور اپنی مزاحیہ شاعری سے سامعین کو قہقہے لگانے پر ہی مجبور نہیں کرتے بلکہ انھیں مسائل کا ادراک کرواتے اور آمادہ کرتے کہ وہ اپنے لیے غوروفکر کریں۔
ان کے مزاحیہ شعری مجموعوں میں "انگلیاں فگار اپنی”، "ستم ظریفیاں”، "آداب عرض”، "شامتِ اعمال”، "مطلع عرض ہے”، "خدا جھوٹ نہ بلوائے”، "چراغِ خنداں” اور "کہا سنا معاف کرنا” شامل ہیں۔ مرحوم نے جمی کارٹر کی مشہور تصنیف کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔
یہاں ہم ان کی ایک مشہور ترین نظم نقل کررہے ہیں جس پر انھیں ادیبوں اور شعرا نے بھی خوب داد دی اور ان کے فن اور نکتہ رسی کو سراہا۔
"شاعرِ اعظم”
کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں
کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں
کرنے لگے یہ بحث کہ اب ہند و پاک میں
وہ کون ہے کہ شاعرِ اعظم جسے کہیں
میں نے کہا جگرؔ، تو کہا ڈیڈ ہو چکے
میں نے کہا کہ جوشؔ کہا قدر کھو چکے
میں نے کہا ندیمؔ تو بولے کہ جرنلسٹ
میں نے کہا رئیسؔ تو بولے سٹائرسٹ
میں نے کہا کہ حضرت ماہرؔ بھی خوب ہیں
کہنے لگے کہ ان کے یہاں بھی عیوب ہیں
میں نے کہا کچھ اور تو بولے کہ چپ رہو
میں چپ رہا تو کہنے لگے اور کچھ کہو
میں نے کہا کہ ساحرؔ و مجروحؔ و جاں نثارؔ
بولے کہ شاعروں میں نہ کیجے انہیں شمار
میں نے کہا کلامِ روشؔ لا جواب ہے
کہنے لگے کہ ان کا ترنم خراب ہے
میں نے کہا ترنمِ انورؔ پسند ہے
کہنے لگے کہ ان کا وطن دیو بند ہے
میں نے کہا کہ ان کی غزل صاف و پاک ہے
بولے کہ ان کی شکل بڑی خوف ناک ہے
میں نے کہا کہ یہ جو ہیں محشرؔ عنایتی؟
کہنے لگے کہ رنگ ہے ان کا روایتی
میں نے کہا قمرؔ کا تغزل ہے دل نشیں
کہنے لگے کہ ان میں تو کچھ جان ہی نہیں
میں نے کہا فرازؔ تو بولے کہ زیر و بم
میں نے کہا عدمؔ تو کہا وہ بھی کالعدم
میں نے کہا خمارؔ، کہا فن میں کچّے ہیں
میں نے کہا کہ شادؔ تو بولے کہ بچّے ہیں
میں نے کہا کہ طنز نگاروں میں دیکھیے
بولے کہ سیکڑوں میں ہزاروں میں دیکھیے
میں نے کہا کہ شاعرِ اعظم ہیں جعفریؔ
کہنے لگے کہ آپ کی ہے ان سے دوستی
میں نے کہا ضمیرؔ کے ہیومر میں فکر ہے
بولے یہ کس کا نام لیا کس کا ذکر ہے
میں نے کہا کہ یہ جو دلاور فگار ہیں
بولے کہ وہ تو صرف ظرافت نگار ہیں
میں نے کہا مزاح میں اک بات بھی تو ہے
بولے کہ اس کے ساتھ خرافات بھی تو ہے
میں نے کہا تو شاعرِ اعظم کوئی نہیں
کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی لازمی نہیں
میں نے کہا تو کس کو میں شاعر بڑا کہوں
کہنے لگے کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں
پایانِ کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ
میں نے کہا ‘حضور’ تو بولے کہ شکریہ