فیاض ہاشمی ایک لاجواب نغمہ نگار ہی نہیں، شان دار مکالمہ نویس بھی تھے۔ وہ 20 سال کے تھے جب گرامو فون کمپنی آف انڈیا میں ملازمت اختیار کی جہاں شعروسخن کے شائق فیاض ہاشمی کو اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں کی رفاقت میں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
شعر گوئی کی صلاحیت اور ملازمت کا تجربہ انھیں فلم نگری تک لے گیا جہاں نغمہ نگار کے طور پر انھوں نے بے مثال شہرت حاصل کی۔ اس کام یابی کی ایک وجہ ان کا موسیقی کا شوق اور اس کے اسرار و رموز سے واقفیت بھی تھی۔
فیاض ہاشمی نے نوعمری ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے فلم ’’انتخاب‘‘ کے بعد ’’انوکھی‘‘ کے گیت لکھے جن میں سے ایک ’’گاڑی کو چلانا بابو‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کے بعد ایک وقت ایسا آیا جب لاہور میں بننے والی ہر دوسری فلم کے لیے ان سے گیت لکھوائے جاتے تھے۔
تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے، حسیں ہے
یہ گیت ایس بی جون کی آواز میں آج بھی مقبول ہے اور یہی نغمہ اس گلوکار کی شہرت کا سبب بنا۔ فیاض ہاشمی کے کئی فلمی نغمات زباں زدِ عام ہوئے اور ان کے گانے والوں کو بھی لازوال شہرت ملی۔
اس فلمی گیت نگار نے اسکرپٹ بھی لکھے اور اپنے زرخیز ذہن اور تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انھوں فلم اولاد، زمانہ کیا کہے گا، نہلے پہ دہلا، انتخاب، پہچان جیسی فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھے۔ انھوں نے 24 فلموں کے لیے کہانی اور مکالمہ نویسی کی۔
فیاض ہاشمی نے ’’سہیلی، اولاد، آشیانہ، سہاگن، ہونہار، پیغام، توبہ، سوال، دیور بھابھی‘‘ جیسی کام یاب فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ 1968ء میں فلمی گیت ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ پر فیاض ہاشمی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ان کا لکھا ہوا وہ گیت تھا جسے کئی گلوکاروں نے گایا اور اس کے بول زبان زدِ عام ہوئے۔
فیاض ہاشمی 1923ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد حسین ہاشمی بھی تھیٹر کے معروف ہدایت کار اور شاعر تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ کا شوق اور تخلیقی جوہر انھیں ورثے میں ملا تھا۔ فیاض ہاشمی نے 29 نومبر 2011ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔
پاکستان میں بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ اور انوکھی اور آخری فلم دیوانے تیرے پیار کے تھی۔
فیاض ہاشمی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔