غلام علی آزاد بلگرامی ہندوستان کے ایک نہایت عالم فاضل اور بزرگ شخصیت ہیں جنھوں نے شعروادب، تاریخ اور تذکرہ نگاری کے ساتھ اپنے دینی ذوق و شوق اور نہایت اہم اور وقیع موضوعات پر تصنیف و تالیف کے سبب نام و مقام پایا۔
وہ نواب ناصر جنگ والیِ حیدر آباد دکن کے استاد تھے۔ بلگرام سے اورنگ آباد آئے تھے اور یہاں دربار سے وابستہ ہو گئے۔ انھیں عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔
1704ء میں پیدا ہونے والے غلام علی آزاد کا تعلق بلگرام سے تھا اور اسی نسبت ان کے نام کے ساتھ بلگرامی لکھا جاتا ہے۔ اورنگ آباد میں قیام کے دوران 1786ء میں آج ہی کے دن ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ انھیں حسّانُ الہند بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت غلام علی آزاد بلگرامی بیک وقت مختلف علوم و فنون میں طاق اور متعدد زبانوں پر کامل عبور رکھنے کے باعث اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ انھیں نثر و نظم پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ وہ تصنیف و تالیف اور شعر و شاعری تک ہی محدود نہ رہے بلکہ علمی میدان میں اپنے افکار و خیالات کے نقش یادگار چھوڑے۔
ان کی نثری تالیف میں’’شمامہ العنبر فی ما ورد فی الہند من سید البشر‘‘ کے علاوہ سبحۃ المرجان جو دراصل علمائے ہند کا تذکرہ ہے، نہایت وقیع و مستند کتاب ہے۔ اسی طرح یدِ بیضا، جو عام شعرا کے تذکرے سے سجائی گئی ہے، خزانۂ عامرہ ان شعرا کے تذکرے پر مبنی ہے جو صلہ یافتہ تھے اور سرورِ آزاد ہندی نژاد شعرا پر نہایت معلوماتی اور مفید کتاب ہے۔ اس کے بعد مآثر الکرام میں انھوں نے علمائے بلگرام کا تذکرہ کیا ہے اور روضۃُ الاولیا میں اولیائے اورنگ آباد کے بارے میں مستند اور جامع معلومات اکٹھی کردی ہیں۔