تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

بلند پایہ محقّق اور مؤرخ حکیم شمسُ اللہ قادری کا تذکرہ

حکیم شمسُ اللہ قادری ایک بلند پایہ محقّق اور مؤرخ کی حیثیت سے پاک و ہند میں‌ معروف ہیں۔ فارسی، اردو زبان و ادب، تاریخ، آثار قدیمہ اور مسکوکات ان کے خاص موضوعات تھے۔

انھوں نے تصنیف و تالیف کے ساتھ تاریخ و ادب پر کئی مضامین اور مقالے تحریر کیے جنھیں بعد میں کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ ان کے مقالے ’اردوئے قدیم‘ کو تحقیق کا بلند کارنامہ مانا جاتا ہے۔ وہ ایک سہ ماہی رسالہ ’تاریخ‘ بھی نکالتے تھے۔ ان کے وسیع مطالعے اور تحقیق کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا سلیمان ندوی، مولانا عبدالحق اور پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی جیسی شخصیات ان سے مشورہ اور استفادہ کیا کرتی تھیں۔

حکیم سید محمد شمس اللہ قادری، 5 نومبر 1885ء کو حیدرآباد، دکن کے شہر لال باغ میں پیدا ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد علم و ادب سے متعلق سرگرمیوں اور طباعت و اشاعت کے کاموں کا سلسلہ شروع کی۔

حکیم شمسُ اللہ قادری دکنیات پر پہلے محقّق بھی ہیں۔ وہ سن 1913ء تک ادارہ فرانسیسی ہندی تاریخ اور رائل ایشیاٹک سوسائٹی برطانیہ و آئرلینڈ کے اعزازی ممبر بھی رہے۔ 1925ء میں انھوں نے اپنا سہ ماہی رسالہ تاریخ شایع کیا۔ ان کی کتاب اردوئے قدیم کو اردو زبان کی تاریخ کی ابتدائی و بنیادی کتب میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے سیکڑوں علمی، تاریخی، تحقیقی اور ادبی مقالہ جات مختلف جرائد و رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ جب کہ ہندوستان کے اسلامی ادوار پر بھی متعدد تحقیقی کتب ان کا علمی سرمایہ ہیں جن میں اس دور کے حالات و معاشرے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

حکیم شمسُ اللہ قادری نے عربوں کے ہندی تعلقات کو باریک بینی سے اجاگر کیا اور ہندوستان میں اسلامی زوال کے اسباب کو واضح کرنے کی بھرپور سعی کی۔ اردو زبان میں سب سے پہلے تاریخی ادوار کی عمدگی سے تشریح اور تحقیقی انداز سے پیش کرنے کی وجہ سے انھیں ’شمس المؤرخین‘ کا خطاب دیا گیا۔

اس میں کچھ شبہ نہیں ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے محقق اور محتاط تاریخ دان تھے۔ اردو کے علاوہ ان کے مقالات عربی، ہندی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور جرمن زبانوں زبانوں میں بھی شائع ہوئے۔ جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں سے عرب و فارس کے تاجروں کی آمد، ان راستوں پر انھوں نے گہرائی سے تحقیق کی جب کہ سمندری راستوں سے سری لنکا، انڈونیشیا، مالدیپ، چین اور افریقہ کے روابط پر بھی اپنی تحقیق کو کتابی شکل میں پیش کیا اور یہ اہم اور معلوماتی کام ہے۔

انہوں نے کئی نایاب اور فراموش شدہ کتب پر مضامین و مقالے اپنے سہ ماہی رسالے تاریخ میں لکھے۔ مرفہ الحال ریاست حیدرآباد دکن کے علم و ادب کے عظیم سرپرست نظام میر عثمان علی خان کے فرمان پر ان کا بہت سا کام سرکار نے کتابی شکل میں شایع کروایا جب کہ 1930ء میں ان کی ادبی و علمی خدمات کے عوض انھیں خطیر رقم ادا کی اور ڈیڑھ سو روپے ماہانہ وظیفہ تاحیات جاری کیا۔

22 اکتوبر 1953ء کو حکیم شمس اللہ قادری وفات نے حیدر آباد دکن میں وفات پائی۔ ان کی کتب تاریخ مشاہیرِ ہند، جواہرُ العجائب، محبوبُ الآثار، اصنامُ العرب، سکہ جاتِ اودھ اور مؤرخین ہند کے نام سے وقیع و بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

Comments

- Advertisement -