انسانی جسم میں خون کی گردش کا نظریہ پیش کرنے والے ابن النفیس کا نام مسلمانوں کے اُس سنہرے دور کی یاد بھی تازہ کر دیتا ہے جس میں علمیت کا اعلیٰ معیار قائم ہوا اور مختلف سائنسی علوم اور ایجاد و دریافت کے ساتھ فلسفہ و منطق، موسیقی اور شعر و ادب میں خوب اور بے مثال کام ہوا۔
آج ابن النفیس کا یومِ وفات منایا جارہا ہے جن کے مقام و مرتبے اور علمیت سے دنیا پچھلی صدی میں واقف ہوئی۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1210ء اور وطن دمشق بتایا ہے۔ ابن النفیس اپنے وقت ماہر طبیب اور ایک محقّق ہی نہیں اصولِ فقہ، منطق اور صرف و نحو کے بھی ماہر تھے۔ انھوں نے دمشق میں بیمارستانِ نوری میں طبّ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اور بعد میں قاہرہ چلے گئے جو عملی اور نظری طبّ کے اعلیٰ مرکز کے طور پر اس زمانے میں شہرت رکھتا تھا اور وہاں طبّ و جراحی کے ماہر اور اپنے دور کے عالم فاضل نسلِ نو کی تعلیم و راہ نمائی کے لیے موجود تھے۔
ابن النفیس کی طبّ میں دل چسپی اور ان کی غور و فکر کی عادت نے انھیں مسلسل تحقیق اور تجربات پر آمادہ کیا اور ایک وقت آیا جب انھیں “رئیس الاطباء “ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ بعد میں وہ بیمارستانِ ناصری سے منسلک ہوئے اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ وہاں طبّ کی تعلیم بھی دیتے رہے۔
انھوں نے اپنے علم اور تجربات کو کتابی شکل میں بھی محفوظ کیا۔ ان کی سب سے بڑی تصنیف “الشامل فی الطبّ” ہے جو بدقسمتی سے مکمل نہیں ہو سکی، لیکن اس کا مخطوطہ دمشق میں محفوظ ہے جو بہت ضخیم ہے۔ اس مسلمان ماہرِ طبّ نے امراضِ چشم کے حوالے سے بھی ایک تصنیف یادگار چھوڑی جس کا نسخہ یورپ میں محفوظ ہے۔
اس عظیم مسلمان ماہرِ طبّ کی عظمت پچھلی صدی میں اس وقت ظاہر ہوئی، جب ایک نوجوان عرب طبیب امین اسعد خیر اللہ نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ ابن النفیس نے اپنی شرح “تشریحِ ابن سینا” میں ابنِ سینا اور جالینوس سے اختلاف کرتے ہوئے دورانِ خون سے متعلق اہم انکشاف کیے تھے۔ اسی مقالے میں اس طبیب نے لکھا کہ خون کی گردش کا جو طبّی نظریہ صدیوں پہلے انھوں نے دیا تھا، اسی کو بنیاد بنا کر بعد میں مغربی سائنس دانوں نے مزید تحقیق کی تھی، لیکن افسوس کی بات ہے کہ ابن النفیس کا نام اس حوالے سے نہیں لیا گیا۔ مغرب کو مسلمان ماہرِ طبّ کے اس نظریے کا علم اس لیے بھی نہیں ہو سکا کہ ان کی اس شرح کے تراجم اس زمانے میں نہیں ہوسکے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نظریے کی تفصیل لاطینی میں ترجمہ کی گئی تھی، لیکن یہ بہت ناقص ترجمہ تھا اور اسی لیے اس کا چرچا نہیں ہوسکا تھا۔
ابن النفیس کی تصانیف میں غیر طبّی موضوعات پر کتب بھی شامل ہیں جن میں سے ایک الرسالہ الکاملیہ فی السیرہ النبویہ اور فاضل بن ناطق بھی ہے۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ طویل القامت اور دبلے تھے، لیکن صاحبِ مروت اور علم و فن کی قدر دان بھی، وہ شادی شدہ نہیں تھے، چنانچہ اپنا گھر، مال اور تمام کتب شفا خانے اور طبّی تحقیق کے لیے وقف کردی تھیں۔ انھوں نے قاہرہ میں 17 دسمبر 1288ء کو وفات پائی۔