تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

علم و ادب، فکر و عمل میں یگانہ محمد ابراہیم جویو کا تذکرہ

محمد ابراہیم جویو ایک مفکّر، دانش وَر، ادب اور تعلیم کے شعبوں‌ کی وہ ممتاز شخصیت ہیں‌ جو سیاست اور ادب سے وابستہ شخصیات کی نظر میں یکساں طور پر قابلِ‌ احترام تھے اور انھیں‌ بہت پذیرائی دی گئی۔

وہ سندھی زبان کے ممتاز ادیب، مترجم، معلّم اور دانش وَر تھے جن کے فکر و فلسفے کا سندھ میں سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی حلقوں سے وابستہ ہر خاص و عام متاثر ہوا۔ ابراہیم جویو 9 نومبر 2017ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

انھوں نے تقسیم سے قبل سندھ کے نوجوانوں کو انگریز راج اور قیامِ پاکستان کے بعد آمریت اور استحصال کے خلاف فکری اور سائنسی نظریاتی بنیادیں فراہم کیں۔ زندگی کی 102 بہاریں دیکھنے والے محمد ابراہیم جویو نے حیدرآباد میں وفات پائی۔

سندھ سے والہانہ لگاؤ اور محبّت کے ساتھ محمد ابراہیم جویو نے زرخیز ذہن اور روشن فکر پائی تھی جس سے ان میں وہ سیاسی شعور اور ذہنی پختگی پیدا ہوئی کہ کم عمری ہی میں وہ سندھ کی ایک نمایاں شخصیت بن گئے۔ انھوں نے 1941ء میں جب ان کی عمر صرف 26 برس تھی، ایک مختصر کتاب "سیو سندھ، سیو دی کانٹینینٹ فرام فیوڈل لارڈز، کیپیٹلسٹس اینڈ دیئر کمیونل ازم” کے نام سے لکھی۔

اس وقت انھیں سندھ مدرسۃُ الاسلام میں نوکری ملی تھی۔ اس کتاب نے اُس وقت کے حکم رانوں کو برہم کردیا اور وہ ملازمت سے نکالے گئے، لیکن جلد ہی ٹھٹھہ کے میونسپل ہائی اسکول میں ٹیچر کی ملازمت مل گئی۔

محمد ابراہیم جویو کی مذکورہ کتاب سندھ کے دانش ور اور تعلیمی حلقوں میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے سیکڑوں مضامین سپردِ‌ قلم کیے، ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں اور ادبی اور ثقافتی مقالے اور کتابچے جاری ہوئے۔ وہ سندھ اور پاکستان میں ترقی پسند ادبی تحریک کے بھی سرگرم کارکن تھے۔

محمد ابراہیم جویو نے 1915ء میں‌ کوٹری کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں میں آنکھ کھولی تھی۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کے علاوہ سن نامی چھوٹے سے قصبے میں حاصل کی اور کراچی کے سندھ مدرسۃُ الاسلام سے میٹرک کیا۔ 1938ء میں انھوں نے کراچی کے ڈی جے کالج سے بی اے کیا۔ بعد ازاں مزید تعلیم کے لیے بمبئی چلے گئے۔

تقسیم کے بعد محمد ابراہیم جویو اسکول ٹیچنگ کے ساتھ سندھی ادبی بورڈ کے سیکریٹری رہے اور بعد میں سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین بنائے گئے۔

انھیں پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ متعدد جامعات کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔

محمد ابراہیم جویو سندھ کی سیاسی تحریکوں میں پیش پیش رہے اور قوم پرست لیڈر جی ایم سیّد اور رسول بخش پلیجو کے علاوہ دیگر کے ساتھ مل کر سندھ کا مقدمہ لڑتے رہے اور ادبی محاذوں پر تحریکوں کی قیادت کی۔

انھوں نے بے شمار مغربی مصنّفوں کا کام اور ان کی تخلیقات سندھی زبان میں ترجمہ کرکے ادب، فلسفے، سیاسیات اور سماجیات کو فروغ دینے میں اپنا حصّہ ڈالا۔ وہ پچاس سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے جن میں‌ بین الاقوامی شہرت یافتہ ادیبوں اور مصنّفین کی کتب کے تراجم بھی شامل ہیں۔

Comments

- Advertisement -