محمد زبیر المعروف جھارا پہلوان 1991ء میں آج کے دن وفات پاگئے تھے۔ جھارا پہلوان نے اپنی زندگی میں لگ بھگ 60 کشتیاں لڑیں اور ہر مقابلے کے فاتح رہے۔ انھیں فخرِ پاکستان اور رستمِ پاکستان کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔
کشتی یا پہلوانی برصغیر کا ایک مقبول کھیل رہا ہے اور اسے صرف ایک کھیل نہیں بلکہ جسمانی نشوونما اور طاقت کا ذریعہ اور ایک نہایت مفید اور مثبت سرگرمی تصوّر کیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں پاکستان کی پہچان بننے والے محمد زبیر کو جھارا پہلوان کے نام سے شہرت ملی۔
وہ 1960ء میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جو پہلوانی اور اکھاڑے میں اترنے کے لیے مشہور تھا۔ وہ اسلم پہلوان کے بیٹے، مشہور بھولو پہلوان کے بھتیجے اور امام بخش پہلوان کے پوتے اور گاما کلو والا پہلوان کے نواسے تھے۔
27 جنوری 1978ء کو پہلا مقابلہ کرنے کے لیے اکھاڑے میں اترنے والے جھارا نے گوگا پہلوان کو چت کرکے فتح اپنے نام کی تھی۔ اگلے برس 1979ء جاپان کے مشہور پہلوان انوکی کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس کشتی کے پانچویں راؤنڈ کے بعد جاپانی پہلوان نے جھارا کے ہاتھ اوپر اٹھا کر اسے مقابلے کا فاتح قرار دے دیا تھا۔
جھارا پہلوان نے 60 کے قریب مقابلوں میں حصّہ لیا اور ہر بار فتح اپنے نام کی۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ جھارا کی کام یابیوں سے حسد کرنے لگے تھے اور انھوں نے ایک سازش کے تحت اس پہلوان کو منشیات کے استعمال کا عادی بنا دیا۔ یوں نہایت کم عمری میں جھارا نے اپنی زندگی گنوا دی۔ وہ صرف 31 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔