آج کنور آفتاب احمد کا یومِ وفات ہے۔ وہ پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں سے ایک ہیں۔ سن 2010ء میں آج ہی کے دن کنور آفتاب دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔
کنور آفتاب 28 جولائی 1929ء کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ گارڈن کالج راولپنڈی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ والد انھیں وکیل بنانا چاہتے تھے، لیکن کنور آفتاب نے لندن جا کر فلم سازی کی تربیت حاصل کی اور چار برس کے بعد وطن لوٹے تو بطور ڈائریکٹر، پروڈیوسر اپنی پہلی فلم ’جھلک‘ تیّار کی۔ یہ روایتی اور عام ڈگر سے ہٹ کر فلم تھی جو باکس آفس پہ کامیاب نہ ہوسکی۔
کنور آفتاب نے فلم کی ناکامی کے بعد 1964ء میں ٹیلی وژن سے وابستگی اختیار کی۔ انھوں نے فلم سازی کی تعلیم اور تربیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کو ٹیلی ویژن کے لیے آزمایا اور اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال جیسی شخصیات کے ساتھ اردو ڈراما کو بامِ عروج دیا۔
کنور آفتاب کے مشہور ٹیلی وژن ڈراموں میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں میں ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔
انھوں نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی بنائی ہوئی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں ایوارڈ دیے گئے۔
کنور آفتاب لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔