تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

شہرۂ آفاق اردو ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کے خالق خواجہ معین الدّین کی برسی

تعلیمِ بالغاں، مرزا غالب بندر روڈ پر اور لال قلعے سے لالوکھیت جیسے متعدد مقبول اور یادگار ڈراموں کے خالق خواجہ معین الدّین 1971ء میں آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

اردو‌ کے اس ممتاز ڈرامہ نویس اور تمثیل نگار نے اپنے فن و تخلیق کی بدولت بلاشبہ شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے جب کہ ان کے تحریر کردہ کھیل ملک بھر میں اسٹیج پر پیش کیے گئے اور نہایت کام یاب ثابت ہوئے۔

خواجہ معین الدّین نے اپنے ڈراموں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کا کام لینے کی کوشش کی اور سیاسی و سماجی برائیوں کو کمال خوبی اور ظریفانہ انداز سے اس طرح لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ ان کے ہر مکالمے اور منظر پر ہال قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ کراچی میں مختلف مقامات پر ان کے ڈرامے اسٹیج ہوئے۔ ان کے کھیل اندرونِ ملک ہی نہیں بیرونِ ملک بھی اسٹیج کیے گئے۔

تعلیمِ‌ بالغاں کی بات کی جائے تو اسے پاکستان کا پہلا کلاسک ڈرامہ قرار دیا گیا۔ یہ اپنے فنِ تحریر، موضوع اور اداکاری کے سبب ریکارڈ ساز ڈرامہ ثابت ہوا۔ خواجہ معین الدّین کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا، جو گہوارہ علم و ادب، آرٹ اور فنون کے لیے مشہور رہا ہے۔ 1924ء کو دکن کے متموّل گھرانے میں آنکھ کھولنے والے خواجہ معین الدین نے جامعہ عثمانیہ سے 1946ء میں بی اے کی سند حاصل کی اور تخلیقی سفر دکن ریڈیو سے شروع کیا۔ وہ شروع ہی سے ڈرامے اور خاکہ نویسی کی طرف مائل تھے۔ وہ زرخیز ذہن کے مالک تھے جنھیں طنز و مزاح کے ساتھ باریک بیں اور ایسا لکھاری کہا جاتا ہے جو سماج پر گہری نظر رکھتے تھے، انھوں نے تقسیم کے بعد کراچی ہجرت کی اور یہاں‌ بھی اپنے فن میں عروج و مقام حاصل کیا۔

خواجہ معین الدّین جامعہ کراچی سے اُردو میں ایم اے کے بعد درس و تدریس میں مصروف ہوگئے۔ اسی زمانے میں ڈرامہ لکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ 1951ء میں خواجہ معین الدین نے صدائے کشمیر لکھا۔ یہ پلے کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد کا ترجمان تھا۔ 1952ء میں ڈرامہ ’’لال قلعے سے لالو کھیت‘‘ لکھا۔ یہ کراچی کی سماجی، معاشرتی اور تہذیبی عروج و زوال کے پس منظر میں تھا۔ 1954ء میں ان کا شہرۂ آفاق ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ اسٹیج پر پیش ہوا اور اس نے اردو ادب اور تمثیل نگاری میں تاریخ رقم کی۔

اردو کے اس ممتاز ڈرامہ نویس نے اپنے تجربات، مشاہدات اور مطالعے کو کہانی اور کرداروں کی مدد سے لاجواب بنا دیا۔ ان ڈراموں اپنے وقت کے باکمال اداکاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور خواجہ صاحب کے ڈراموں کو لازوال و بے مثال بنا دیا۔

حکومتِ پاکستان نے خواجہ معین الدّین کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

Comments

- Advertisement -