شہناز، نرگس اور نوتن کے بعد قسمت کی دیوی مدھو بالا پر مہربان ہوئی اور انھوں نے فلم مغلِ اعظم میں انار کلی کا کردار نبھا کر اسے لازوال بنا دیا۔
ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں اس اداکارہ کو ان کی خوب صورتی کی وجہ سے ‘وینس آف انڈین سینیما’ بھی کہا جاتا ہے۔ آج مدھو بالا کی برسی ہے جن کا اصل نام ممتاز تھا۔
وہ ممتاز کے نام سے پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔یہ 1942ء کی بات ہے۔ اس زمانے کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی نے ان کی اداکاری سے متاثر ہوکر انھیں اپنا نام مدھو بالا رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم میں جن دنوں اداکارہ اپنا مشہورِ زمانہ کردار نبھا رہی تھیں، بے حد بیمار تھیں، لیکن وہ برصغیر کے نام وَر فلم ساز، کے آصف کی توقعات پر پوار اتریں۔ کہتے ہیں کلاسک کا درجہ رکھنے والی اس فلم کے لیے میں انار کلی کے کردار کے لیے فلم ساز کو جیسا حسن اور روپ، بانکپن، غرور اور دل کش لب و لہجہ چاہیے تھا، وہ سب مدھو بالا میں تھا۔
مدھو بالا فلم انڈسٹری کی وہ اداکارہ تھیں جن کا چہرہ آنکھوں میں بَس جاتا اور وہ دل میں اتر جاتیں۔ روپ کی اس رانی نے شہرت اور نام و مقام تو بہت بنایا مگر عمر تھوڑی پائی۔ انھیں زندگی کی صرف 36 بہاریں نصیب ہوئیں جس میں نو برس ایسے تھے جب وہ اپنے گھر میں اپنی بیماری سے لڑتے ہوئے تنہا وقت گزار رہی تھیں۔ 1969ء میں آج ہی کے دن وہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔
مدھو بالا 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ پیدائش کے بعد ڈاکٹروں نے والدین کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے دل میں سوراخ ہے جس میں انھیں آرام کی ضرورت ہوگی، لیکن کم عمری ہی میں وہ فلم نگری میں چلی آئیں جہاں مسلسل کام اور شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔
خوب صورت اور خوش ادا ممتاز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں 9 سال کی عمر میں اپنے 11 بہن بھائیوں اور والدین کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے فلمی دنیا میں بھیج دیا گیا تھا۔ ان کے والد لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے، جو نوکری چھوڑ کر دہلی چلے گئے اور وہاں سے بمبئی اس امید کے ساتھ پہنچے کہ ان کی خوب صورت بیٹی کو فلموں میں کام ضرور ملے گا اور وہ اس کی کمائی ان کی زندگی بدل دے گی۔ ہُوا تو یہی، مگر اس بھاگ دوڑ میں خود ان کی زندگی کے دن گھٹ گئے۔
بولی وڈ کی اس اداکارہ اور دلیپ کمار کے درمیان رومانس کی خبر بھی اس زمانے میں خوب گرم رہی، اور بعد میں ان کے مابین دوریوں کا چرچا بھی ہوا، لیکن 1960ء میں وہ مشہور گلوکار کشور کمار کی دلہن بن گئیں۔ کشور کمار کو مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن وہاں ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ اس دنیا میں چند سال کی مہمان ہیں۔ کشور کمار انھیں میکے میں چھوڑ کر اپنی دنیا میں مصروف ہوگئے اور دو تین ماہ میں ایک بار ان سے ملاقات کے لیے جاتے تھے۔
ہندوستانی فلم انڈسٹری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور بے مثال کام کے علاوہ کمال امروہوی عاشق مزاج اور حُسن پرست بھی مشہور تھے۔
انیس امروہوی نے اداکارہ مدھو بالا اور کمال امروہوی کے درمیان ملاقات سے متعلق ایک واقعہ یوں بیان کیا ہے، ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔
جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟
اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بن گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم ’محل‘ میں مدھوبالا بے حد خوب صورت دکھائی دی ہے اور اعلیٰ درجے کی فلموں میں وہ اسی فلم سے اپنی پہچان بنا سکی۔
مدھو بالا کی مشہور فلموں میں محل، دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے باکمال اداکاروں اور مقبول ترین ناموں کے ساتھ کام کیا۔ مدھو بالا نے صرف 66 فلموں میں کردار نبھائے تھے۔
آج بہت سے فلم اسٹارز اپنے ساتھ باڈی گارڈ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں بولی وڈ میں یہ سلسلہ مدھو بالا نے شروع کیا تھا۔ اداکارہ کو ممبئی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا تھا۔