"اَن ٹچ ایبل” انگریزی زبان میں وہ مشہور ناول تھا جس میں مصنّف نے ہندوستانی سماج میں ذات پات کے نظام پر تنقید کی تھی۔ یہ ایک ایسی پندرہ سالہ مزدور لڑکی کی کہانی ہے جو تپِ دق سے مر جاتی ہے۔ یہ ملک راج آنند کا ناول تھا جو آج ہی کے دن 2008ء میں وفات پاگئے تھے۔
بھارتی ناول اور افسانہ نگار ملک راج آنند 1905ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر پشاور (پاکستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان چلے گئے۔
انھوں نے 1920ء کے عشرے میں انگلستان میں لندن اور کیمرج کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کئی برس تک انگلستان میں قیام کیا۔
وہاں انھیں انگریزی زبان و ادب کا مطالعہ کرنے، تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کے ساتھ اپنے زمانے کے اہم مصنّفین اور تخلیق کاروں کی صحبت اور ان کی رفاقت نصیب ہوئی جس نے انھیں لکھنے پر اکسایا۔
ملک راج آنند کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ انھوں نے کہانیوں کے ساتھ ادبی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ وہ عرصہ دراز تک ممبئی کے مشہور آرٹ میگزین "مارگ” کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ملک راج آنند مہاتما گاندھی کی شخصیت اور لندن کی علمی وادبی فضا سے بڑے متاثر نظر آتے ہیں۔
ملک راج آنند کے مندرجہ بالا ناول کو ان کا ایک ذاتی المیے پر ردِ عمل کہا جاتا ہے۔ ہُوا یہ تھا کہ ان کی ایک عزیزہ کو ہندو برادری سے صرف اس بات پر الگ کردیا گیا تھا کہ انھوں نے ایک مسلمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔ خاتون نے اس سے دل گرفتہ ہوکر خود کشی کر لی تھی۔
اس ناول کا پیش لفظ ملک راج آنند کے دوست اور مشہور ناول نگار ای ایم فوسٹر نے لکھا تھا۔
ناول کے بارے میں ایک اور مشہور مصنّف مارٹن سیمور سمتھ لکھتے ہیں کہ ’یہ ایک جذباتی اور مشکل موضوع پر لکھا جانے والا فصاحت اور بلاغت سے پُر اور فکرانگیز شاہکار ہے۔’
ان کی ادبی کاوشوں میں ’قلی‘، ’ٹُو لیوز اینڈ اے بڈ‘ ’دی ویلج‘ اور ’ایکراس دی بلیک واٹرز‘ بھی شامل ہیں اور دی سیون ایجز آف مین، دی سیون سمرس، دی بیل بھی انہی کی فکر و تخلیق ہیں۔
مرحوم بہت اچّھی اردو بھی جانتے تھے اور ان کا انگریزی اور اردو ادب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔
ملک راج آنند شاعر مشرق، علامہ اقبالؒؒ کی شاعری کا چرچا سن کر ان کے گرویدوہ ہوئے اور ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد ملک راج آنند فلسفے میں ازحد دلچسپی لینے لگے۔
ملک راج آنند اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں: ’’میں نے ان(علّامہ اقبال) سے کہا، میں آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہوں۔‘‘وہ بولے ’’میرے نقش قدم پر چلے، تو تم میونخ (جرمنی) پہنچ جاؤ گے۔ لیکن تم تو جرمن زبان نہیں جانتے۔ پھر شاید تمہارے پاس اتنی رقم بھی نہیں کہ وہاں جا سکو۔ بہرحال تم ایسا کرو کہ لندن چلے جاؤ۔ میں اس سلسلے میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘
آخر شاعر مشرق کی کوششوں سے یونیورسٹی کالج، لندن میں ملک راج آنند کا داخلہ ہوگیا۔ ملک راج آنند کو اقبال کی بہت سی نظمیں زبانی یاد تھیں۔
ملک راج آنند نمونیہ میں مبتلا ہونے کے بعد 94 سال کی عمر میں چل بسے تھے۔ انھیں بھارت میں متعدد ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔