تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

سندھی زبان و ادب کے محسن، منگھا رام ملکانی کا تذکرہ

سندھی نثر جی تاریخ ایک تحقیقی اور تنقیدی شاہ کار ہے جس کے مصنّف منگھا رام ملکانی تھے۔ وہ جدید سندھی نثری ادب کے معماروں میں شامل تھے۔

آج نوجوان نسل ان کے نام اور ان کے علمی و ادبی کارناموں سے شاید ہی واقف ہو، لیکن سندھی زبان و ادب میں‌ ان کا نام مذکورہ کتاب کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے گا۔اسی کتاب پر انھیں 1969ء میں ساہتیہ اکیڈمی اعزاز برائے سندھی ادب سے نوازا گیا تھا۔

اس کتاب میں سندھی افسانے، ناول، ڈرامے اور مضمون نویسی کے ابتدائی دور سے لے کر تقسیمِ ہند تک ہونے والی ترقّی اور ہر صنفِ ادب کی ترقّی کے ساتھ ان کی جداگانہ خصوصیت کو بھی بیان کیا گیا ہے اور یہ وقیع، مستند اور نہایت جامع تصنیف ہے۔

پروفیسر منگھا رام ملکانی سندھی زبان کے نام وَر ادبی مؤرخ، نقّاد، معلّم اور ڈراما نویس تھے۔ انھوں‌ نے ڈی جے کالج، کراچی میں انگریزی کے استاد اور بعد میں جے ہند کالج بمبئی میں پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

وہ 24 دسمبر 1896ء کو حیدر آباد، سندھ میں پیدا ہوئے۔ منگھا رام نے ڈی جے کالج کراچی سے بی اے (آنرز) کی سند حاصل کی۔ ملازمت کا آغاز ڈی جے کالج سے انگریزی کے لیکچرار کے طور پر کیا، پھر اسی کالج میں فیلو مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد بھارت کے شہر بمبئی منتقل ہو گئے اور وہاں کالج میں پروفیسر مقرر ہو گئے۔

ان کے ادبی سفر کا آغاز ڈراما نگاری سے ہوا۔ یہ شروع ہی سے ان کی دل چسپی کا میدان تھا۔ اس صنف میں‌ انھوں نے انگریزی، اردو اور دوسری زبانوں سے متعدد ڈرامے سندھی زبان میں ترجمہ کرنے کے علاوہ ادب کو طبع زاد ڈرامے بھی دیے۔

منگھا رام ملکانی کے معروف ڈراموں میں اکیلی دل (اکیلا دل)، ٹی پارٹی، پریت جی پریت، لیڈیز کلب، سمندر جی گجگار (سمندر کی گرج)، کوڑو کلنک (جھوٹا کلنک)، دل ائین دماغ (دل اور دماغ)، کنھ جی خطا؟ (کس کی خطا؟) و دیگر شامل ہیں۔

وہ ڈرامہ اور ناول نگاری سے تحقیق و تنقید کی طرف راغب ہوگئے۔ انھوں نے مضامین لکھنا شروع کیے جو سندھی اخبارات اور جرائد میں‌ شایع ہونے لگے۔منگھا رام کو اسی عرصے میں ایک ایسی مستند کتاب لکھنے کا خیال آیا جو سندھی نثر اور ادب کا احاطہ کرے اور طالب علموں کی راہ نمائی کرے۔ انھوں نے اس پر کام شروع کیا اور سندھی نثر کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کو اپنی کتاب میں سمیٹ لیا جو ایک شاہ کار مانی جاتی ہے۔

منگھا رام ملکانی 1980ء کو آج ہی کے دن بمبئی میں وفات پا گئے تھے۔

Comments

- Advertisement -