اتوار, ستمبر 8, 2024
اشتہار

’ہوئی مدت کہ غالب مَر گیا پر یاد آتا ہے!‘

اشتہار

حیرت انگیز

مرزا غالب اردو کے واحد شاعر ہیں جن کے کلام کی کئی شرح بازار میں مل جاتی ہیں۔ ان کا فارسی کلام بھی اردو زبان میں ترجمہ کیا گیا اور غالب کے خطوط بھی کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ پاکستان اور بھارت میں ہر شخص غالب کا مداح ہے، خواہ وہ شاعری سے شغف نہ رکھتا ہو۔

15 فروری 1869ء کو اسد اللہ خاں غالب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ یہ تحریر ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے ہے۔ شاعری ہو یا نثر غالب کی شوخی، ظرافت، فلسفہ اور اندازِ بیاں انھیں ہندوستان کا سب سے بڑا اور مقبول شاعر بناتے ہیں۔ اگر غالب کی شاعری گنجینۂ معنی کا طلسم ہے تو اُن کی نثر بہار آفرین۔ غالب اُس دور میں مشہور ہوئے تھے جب دلّی کے تخت پر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر اپنے آخری دن پورے کر رہے تھے اور غالب کو بھی ان کے دربار تک رسائی حاصل ہوئی تھی۔

یہاں ہم سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تصنیف "شخصیات” سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں جس میں‌ برصغیر کے اس بڑے مفکر، عالم، مصنّف اور مشہور سیاست داں نے بھی غالب کی فن کارانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک نکتہ بھی سامنے رکھا ہے۔ مودودی لکھتے ہیں:

- Advertisement -

"میں صرف مرزا اسد اللہ خان غالب کے کلام ہی کا مداح نہیں ہوں، بلکہ ان سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی ہے۔ میرے نانا، مرزا قربان علی بیگ سالک مرحوم، ان کے خاص شاگردوں میں سے تھے اور ان کا مکان بھی دہلی میں میری ننھیال کے مکان سے بالکل متصل واقع تھا۔

اس طرح میں نے آنکھیں ہی ایک ایسے خاندان میں کھولی ہیں جو ان کے کلام ہی سے نہیں، ان کی ذات سے بھی بہت قریبی تعلقات رکھتا تھا۔ مجھے بچپن سے ان کے کلام کے ساتھ عشق رہا ہے اور میں ان کو ہند و پاکستان ہی کے نہیں، دنیا کے شعراء کی صفِ اوّل کا شاعر سمجھتا ہوں۔ یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہمارے اندر ایسا بے نظیر سخن ور پیدا ہوا، اور یہ اس کی بد قسمتی تھی کہ وہ ایک پس ماندہ قوم کے بھی انتہائی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہوا۔ جس کی وجہ سے دنیا نے شعر و ادب کی تاریخ میں آج تک اس کو وہ مقام بھی نہ دیا جو اس سے بہت فروتر درجے کے شعراء کو صرف اس لیے مل گیا کہ وہ ایک جاندار قوم میں پیدا ہوئے تھے۔”

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں