نصیر الدّین ہمایوں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدّین بابر کا بیٹا تھا۔ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر شہنشاہِ ہند کی حیثیت سے تخت نشیں ہوا۔
وہ 1508ء میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں کا نام ماہم بیگم تھا۔ ہمایوں نے ترکی، فارسی اور عربی زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔ وہ فلسفہ، علمِ نجوم و فلکیات میں خصوصی دل چسپی رکھا تھا۔ 20 سال کی عمر میں وہ بدخشاں کا گورنر مقرر ہوا اور فوج کے ساتھ لڑائیوں میں بھی شریک رہا۔ 1530ء میں وہ شہنشاہِ ہند بنا، لیکن سلطنت کو سنبھال نہ سکا۔ اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ہمایوں 1556ء میں آج ہی کے دن اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔
کہتے ہیں اس کی موت سیڑھیوں سے گرنے کے سبب واقع ہوئی تھی۔ اسی مناسبت سے مشہور یورپی مؤرخ لین پول نے لکھا،“ اس نے تمام عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھا کر مرا۔“ یہاں ہم اردو کے ممتاز نقّاد اور ادیب شکیل الرّحمٰن کی نصیر الدّین ہمایوں سے متعلق ایک کہانی نقل کررہے ہیں جو دراصل بچّوں کے لیے لکھی گئی تھی۔ انھوں نے ہندوستان کے کئی بادشاہوں سے متعلق واقعات کو بچّوں کے لیے نہایت دل چسپ انداز میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
ہندوستان کے مشہور مغل بادشاہ ہمایوں کی امّاں کا نام ماہم بیگم تھا، ہمایوں کے والد شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی رفیقۂ حیات کو شادی کے بعد ہی سے ماہم کہنا شروع کر دیا تھا یعنی ’چاند۔’ بہت ہی خوب صورت تھیں نا ہمایوں کی امّاں، اسی لیے! ننھا ہمایوں بیمار ہوتا تو لگتا امّاں بی خود بیمار ہو گئی ہیں، دن رات اپنے پیارے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی تھیں، آگرہ کے لوگ ماہم بیگم کی بہت عزّت کرتے تھے اور سب اُنھیں پیار سے امّاں کہتے تھے۔
امّاں ماہم بیگم بھی شہر کے لوگوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ہر تہوار پر، وہ تہوار ہندوؤں کا ہو یا مسلمانوں کا، پورے قلعے پر چراغ روشن کراتیں، مٹھائیاں تقسیم کراتیں، شہر بھر کے بچّوں کو بلاتیں تاکہ وہ ننّھے ہمایوں کے پاس آ کر کھیلیں اور خوب مٹھائیاں کھائیں۔
اماّں ماہم بیگم کو بچّوں سے بے حد پیار تھا، قلعے میں جو بچّے آتے اُن میں ایک بہت ہی پیارا سا بچّہ تھا موٹو۔ بہت موٹا تھا اور خوب کھاتا تھا اسی لیے اس کا نام موٹو ہو گیا تھا۔ امّاں ماہم بیگم اور ہمایوں دونوں موٹو کو بہت پسند کرتے تھے۔ ننھّا موٹو اکثر آتا اور ہمایوں کے ساتھ کھیلتا، دونوں دوست بن گئے تھے۔ ہاں، ہمایوں اکثر کہتا ’’موٹو کھانا کم کھایا کر ورنہ پیٹ پھٹ جائے گا۔‘‘
موٹو کے باپ کا نام ہیرا تھا جو دودھ فروخت کیا کرتا تھا اور اُسی سے گزارا کرتا تھا، ننھّے موٹو کی سب سے اچھی سواری بھینس تھی، وہ دن بھر بھینس کے اوپر بیٹھ کر اپنے پتا جی کی بھینسوں کو چراتا تھا، ندی پار جو کھیت تھا موٹو وہیں اپنی بھینسوں کو چراتا تھا اور ننّھا ہمایوں اور اس کی امّاں ماہم بیگم دونوں قلعے کے اوپر سے بہت دور سے اسے دیکھتے اور خوش ہوتے تھے۔ موٹو کو قلعے میں اتنا پیار ملا کہ اس کے آنے جانے کی کسی قسم کی رکاوٹ نہ تھی۔ وہ جب چاہتا ننھّے ہمایوں سے ملنے آ جاتا، امّاں ماہم بیگم اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں، اسی طرح کہ جس طرح اپنے بیٹے ہمایوں کو کھلاتی تھیں۔
آہستہ آہستہ ہمایوں اور موٹو دونوں بڑے ہوتے گئے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا، ایک دن ہمایوں نے ضد کی کہ وہ موٹو کے ساتھ کھیت پر جائے گا اور موٹو کی طرح کسی بھینس پر بیٹھے گا۔ ہمایوں شہزادہ تھا۔ بہت اچھا گھڑ سوار بن رہا تھا، لیکن بھینس پر بھی بیٹھنا چاہتا تھا۔ امّاں ماہم بیگم نے اجازت دے دی، ہمایوں بہت خوش ہو گیا۔ چند سپاہیوں کی نگرانی میں کھیت پر پہنچا۔ موٹو اپنی بھینس پر لیٹا مستی مار رہا تھا۔ موٹو ہمایوں کو دیکھ کر بہت خوش ہو گیا۔ بھینس سے نیچے اتر آیا اور سپاہیوں کی مدد سے ہمایوں بھینس پر چڑھ گیا۔ اب تو اس کی خوشی مت پوچھو، اسے یہ سواری بہت اچھی لگ رہی تھی۔ موٹو دوسری بھینس پر بیٹھ گیا اور دونوں مست کھیلتے رہے۔ جب خوب کھیل چکے تو اپنی اپنی بھینسوں سے نیچے اترے۔
ایسا ہوا بچّو کہ ہمایوں جیسے نیچے اترا ایک زہریلے سانپ نے اسے ڈس لیا اور ہمایوں کی حالت خراب ہونے لگی۔ سپاہیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ موٹو نے جب اپنے دوست کی یہ حالت دیکھی تو فوراً اپنی قمیص پھاڑ ڈالی اور ہمایوں کی ٹانگ پر زخم کے اوپر نیچے دو پٹیاں کس کر باندھ دیں تاکہ زہر نہ پھیلے۔ موٹو کی تیزی اور چستی دیکھ کر سپاہی بھی حیران رہ گئے۔
ہمایوں کو قلعہ لایا گیا۔ موٹو بھی ساتھ ساتھ آیا۔ شاہی حکیم صاحب آئے، انھوں نے علاج کیا اور ہمایوں اچھا ہو گیا۔ شاہی حکیم صاحب نے امّاں ماہم بیگم سے کہا ’’اگر موٹو نے اس وقت ہمایوں کے پاؤں پر پٹیاں نہ باندھی ہوتیں تو زہر پورے جسم میں پھیل جاتا۔ یہ بھینس والا موٹو بہت ذہین اور ہوشیار ہے۔‘‘
امّاں ماہم بیگم اور شہنشاہ بابر دونوں موٹو سے بہت خوش ہوئے۔ موٹو کو اپنے قلعے میں رکھ لیا، اس کی تعلیم تربیت کا انتظام کیا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا شروع کیا۔
جب شہنشاہ بابر کا انتقال ہو گیا اور ہمایوں بادشاہ بنا تو امّاں ماہم بیگم نے ہمایوں کو یاد دلایا کہ کس طرح کھیت میں ناگ نے اسے کاٹا تھا اور کس طرح موٹو نے پٹیاں باندھ کر اس کی زندگی بچائی تھی۔ ہمایوں کو واقعہ یاد تھا، وہ موٹو کو بہت پیار کرتا تھا اور اسے اپنا دوست سمجھتا تھا۔ ہمایوں نے پوچھا ’’امّاں بیگم میں موٹو کے لیے کیا کروں؟‘‘
امّاں بیگم نے کہا، ’’موٹو کو اپنا ذاتی سپہ سالار بنا لو، وہ تمھارا سچّا دوست ہے۔‘‘
ہمایوں نے فوراً حکم نامہ جاری کیا۔ موٹو شہنشاہ ہمایوں کا ذاتی سپہ سالار بن گیا۔ امّاں بیگم بہت خوش ہوئیں اور اپنے دونوں بیٹوں کو خوب پیار کیا۔
ہمایوں نے موٹو سے کہا، ’’دیکھو موٹو کھانا زیادہ کھاؤ گے تو اور بھی موٹے ہو جاؤ گے، دوڑ میں سپاہی آگے نکل جائیں گے اور سپہ سالار پیچھے رہ جائے گا۔‘‘ سب ہنسنے لگے۔
جانتے ہو بچوّ، یہی موٹو سپہ سالار بساون کے نام سے مشہور ہوا اور جانے کتنے دشمنوں کو شاہی فوج کا سردار بن کر شکست دی۔ ہمایوں اور بساون عرف موٹو کے پیار کی کہانی بھلا کون بھول سکتا ہے!