بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کی اردو اور پنجابی زبانوں میں شاعری نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ وہ اپنے دور کے سب سے جدا اور منفرد شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ آج منیر نیازی کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 2006ء ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔
منیر نیازی 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے قصبہ خان پور کے اک پشتون گھرانے میں پپدا ہوئے تھے۔ وہ ایک سال کے تھے جب ان کے والد وفات پاگئے۔ منیر نیازی کی پرورش ان کی والدہ اور چچاؤں نے کی۔ ان کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ یوں منیر نیازی بھی مطالعہ کے عادی ہوگئے اور بعد میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے لیے شاعری شروع کردی۔ منیر نیازی نے ابتدا میں چند کہانیاں اور افسانے بھی لکھے تھے، لیکن یہ سلسلہ شعروسخن میں ان کے شوق کے آگے ماند پڑ گیا۔
منیر نے ابتدائی تعلیم ساہیوال میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے، لیکن یہ ملازمت ان کے ادبی ذوق کی تسکین کے راستے میں رکاوٹ تھی، سو انھوں نے نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ باقاعدہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کرنے والے منیر نے تقسیمِ ہند کے بعد خاندان کے ساتھ پاکستان میں رہنا پسند کیا۔ یہاں انھوں نے کاروبار شروع کیا، لیکن خسارے جھیلنا پڑے اور پھر لاہور میں مجید امجد کے ساتھ ادبی پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا۔ منیر نیازی نے مختلف اخبار اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں انھوں نے فلمی گیت نگاری کی اور ان کے تحریر کردہ کئی نغمے بہت مشہور ہوئے۔ ان میں ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘، ’’جس نے مرے دل کو درد دیا‘‘ اور ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘، ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ شامل ہیں۔
منیر نیازی نے اردو ادب کو 13 شعری مجموعے دیے جن میں تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعتِ سیار شامل ہیں جب کہ پنجابی زبان میں ان کے تین شعری مجموعے شایع ہوئے۔
حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ اردو کے صاحبِ اسلوب اور اپنی لفظیات میں بے مثل منیر نیازی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
تُو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں
نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں
ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لبِ گویا نہیں
جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
غم سے پتّھر ہو گیا، لیکن کبھی رویا نہیں