مشتاق احمد یوسفی اپنی زبان دانی کے لیے مشہور تھے۔ وہ لفظوں کے ہیر پھیر سے ایسا مزاح پیدا کرتے ہیں جس کی گرفت کے لیے قاری کو خاصا ہشیار رہنا پڑتا ہے۔ اپنے عہد کے ایک ممتاز ادیب اور شاعر شمس الرحمٰن فاروقی نے ان کے بارے میں لکھا:
’’مشتاق احمد یوسفی ہمارے دور کے سب سے بڑے طنز و مزاح نگار ہیں۔ ان کے مزاح میں شعر و ادب کا علم کچھ اس طرح پیوست ہے، اردو زبان کی وسعتوں پر انھیں اس قدر قابو ہے کہ اس کے باعث انھیں پڑھنے اور ان کے فن کا پورا لطف حاصل کرنے کے لیے ہمارا بالغ نظر اور وسیع مطالعہ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ پرانی باتوں، خاص کر زمانۂ گزشتہ کے اشعار اور عبارات کو پر لطف تحریف کے ساتھ پیش کرنا یوسفی کا خاص انداز ہے۔ قاری کی نظر اگر ان پرانے حوالوں پر ہو تو وہ یوسفی کی مزاحیہ تحریف کو سمجھ سکتا ہے اور پھر وہ ان کی پہنچ اور ندرتِ خیال کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی ایک ایسے مزاح نگار ہیں جن کی تحریریں قاری سے غور و خوض اور فہم و تدبّر کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان کی عبارات سے لطف اٹھانے کے لیے انہیں کئی بار پڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اردو طنز و مزاح میں مشتاق احمد یوسفی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ انھیں اس عہد کا سب سے بڑا مزاح نگار کہا جاتا ہے۔ آج مشتاق یوسفی کی برسی پر ان کی طنز و مزاح پر مبنی تحریروں سے اقتباس ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔
1955ء میں مشتاق یوسفی نے ’’صنفِ لاغر‘‘ عنوان سے مضمون لکھا تھا جو مشہور رسالے ’’سویرا‘‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور ان کی شہرت اور مقبولیت بھی پاک و ہند تک محدود نہ رہی بلکہ جہاں جہاں اردو زبان پڑھنے اور سمجھنے والے بستے ہیں، وہاں وہاں مشتاق احمد یوسفی کی مزاح نگاری کا لطف لیا گیا۔ 1961ء میں ان کی پہلی تصنیف ’’چراغ تلے‘‘ شائع ہوئی تھی جسے ہر خاص و عام میں سراہا گیا۔ دوسری کتاب ’’خاکم بدہن‘‘ 1970ء میں اور تیسری ’’زرگزشت‘‘ 1976ء میں منظرِ عام پر آئی اور مقبول ہوئی جب کہ ’’آبِ گم‘‘ 1989ء میں آنے والا ان کے مضامین کا مجموعہ تھا اور پانچویں کتاب کا نام ’’شامِ شعر یاراں‘‘ تھی جو 2014ء میں شایع ہوئی۔
ان کے رشحاتِ خامہ طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ اپنے اندر گہرائی، گیرائی، اصلاح اور فلسفہ جذب کیے ہوئے ہیں۔ ذہانت و لیاقت اور وسعتِ مطالعہ کے ساتھ لسانی بازی گری کے ذریعے مشتاق یوسفی نے طنز و مزاح نگاری کو بامِ معراج پر پہنچایا ہے اور اس پر اردو ادب ہمیشہ گراں بار رہے گا۔ اپنے طنز سے بھرپور نشتروں کے ذریعے وہ سماج میں پائی جانے والی برائیوں کی جس طرح جراحی کرتے ہیں، وہ بے مثال اور لاجواب ہے۔
وہ ایک بینکار تھے اور موصوف کو اپنے والد کی وفات پر صرف تین دن کی چھٹیاں ملی تھیں، اس پر ستم ظریفی یہ کہ تین چھٹیوں کی تنخواہ بھی ان کی ماہانہ تنخواہ سے منہا کر دی گئی تھی۔ وہ اپنے مزاحیہ انداز میں زرگزشت میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہمیں یاد ہے جون کا مہینہ فری امپورٹ کا زمانہ تھا۔ کام بے اندازہ آدمی کم۔ ہم چار آدمیوں کے برابر کام اور آٹھ آدمیوں کے برابر غلطیاں بڑی تن دہی سے کر رہے تھے۔ ایک منحوس صبح خبر آئی کہ ٹنڈو آدم میں اخبار پڑھتے پڑھتے ابّا جان پر دل کا دورہ پڑا، اور زمیں نے اپنی امانت واپس لے لی۔ حیدر آباد میں ان کی تدفین کے سلسلہ میں تین دن کی رخصت اتفاقیہ لینے کی پاداش میں یعسوب الحسن غوری نے ہماری تنخواہ کاٹ لی۔ جو کچھ عرصہ بعد انڈرسن نے اس وارننگ پر واپس دلوا دی کہ ’’ آئندہ اس واقعہ کو نہیں دہرایا جائے گا۔‘‘
کسی پیشے میں جب کوئی نو وارد ہوتا ہے تو اسے کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہاں کے ماحول میں ڈھلنے اور اپنی ذہانت اور قابلیت کا ثبوت دینے تک ہر طرح کے طعن و تشنیع سے دوچار ہونا پڑ تا ہے۔ موصوف کو بھی بینک کی ملازمت اختیار کرنے پر ان پریشانیوں کا شکار ہونا پڑا جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ہم ریوڑ میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ ہر ایک سینگ مارتا تھا۔ ’’کی جس سے بات اس نے ہدایت ضرور کی‘‘ یوں تو سارے جہان کی کھڑکیاں ہمارے ہی آنگن میں کھلتی تھیں لیکن یعسوب الحسن غوری کا انگوٹھا ہمارے ٹینٹوے پر ہی رہتا تھا۔ روز روز کے طعن و تشنیع سے ہمارا کلیجہ چھلنی ہو گیا تھا بلکہ چھلنی میں چھید بھی ہو گئے تھے جن میں سے اب موٹے موٹے طعنے پھسل کر نکلنے لگے تھے۔ منجملہ دیگر الزامات کے ہم پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ ہمارے دستخط گستاخانہ حد تک لمبے تھے۔‘‘
اسی طرح ایک مضمون میں خودکشی کرنے والوں کی بابت یوں شگفتہ نگاری کی ہے:
اس زمانے میں عام آدمی کو خود کشی کے لیے طرح طرح کی صعوبتیں اُٹھانا اور کھکھیڑ اُٹھانی پڑتیں تھیں۔ گھروں کا یہ نقشہ تھا کہ ایک ایک کمرے میں دس دس اس طرح ٹُھنسے ہوتے کہ ایک دوسرے کی آنتوں کی قراقر تک سُن سکتے تھے۔ ایسے میں اتنا تخلیہ کہاں نصیب کہ آدمی پھانسی کا پھندا کڑے میں باندھ کر تنہا سکون سے لٹک جائے۔ علاوہ ازیں، کمرے میں ایک ہی کڑا ہوتا تھا جس میں پہلے ہی ایک پنکھا لٹکا ہوتا تھا۔ گرم کمرے کے مکین اس جگہ کسی اور کو لٹکنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ رہے پستول اور بندوق تو اُن کے لائسنس کی شرط تھی جو صرف امیروں، وڈیروں اور افسروں کو ملتے تھے۔ چناچہ خود کشی کرنے والے ریل کی پٹری پر دن بھر لیٹے رہتے کہ ٹرین بیس بیس گھنٹے لیٹ ہوتی تھی۔ آخر غریب موت سے مایوس ہو کر کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے۔