اودھ کے چوتھے نواب آصف الدّولہ کا نام لکھنوی تہذیب و ثقافت اور اردو شاعری میں اُس اسلوب کے بانی کے طور پر لیا جاتا ہے جو دبستانِ لکھنؤ مشہور ہوا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔
آصفُ الدّولہ کے زمانے میں دہلی سیاسی اور اقتصادی بد حالی کا شکار تھی اہلِ علم اور نادرِ روزگار شخصیات وہاں سے لکھنؤ پہنچے تو دربار میں ان کی بڑی عزّت کی گئی اور صاحبانِ کمال کا خیر مقدم کیا گیا، یہی نہیں بلکہ نواب نے اپنے خرچ پر انھیں لکھنؤ بلایا۔
آصفُ الدّولہ کو اسی سبب ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں، فنونِ لطیفہ کا شائق اور فن کا قدر دان کہا جاتا ہے انھوں نے نہ صرف علم و ادب کی سرپرستی بلکہ عظیم الشّان عمارتیں تعمیر کروا کے فنون اور ہنر کو بھی توقیر بخشی اور ہندستان میں گنگا جمنی تہذہب کے علم بردار مشہور ہوئے۔
آصفُ الدّولہ کا نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام شہزادوں کی طرح کیا گیا۔ اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ دوسرے فنون میں بھی دستگاہ حاصل کر لی۔ آصفُ الدّولہ شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو کے علاوہ ایک فارسی دیوان بھی مرتب کیا۔
جہاں تک امورِ سلطنت کا سوال ہے تو سیاست کے امور اور فوج کو انگریزوں نے ایک معاہدہ کی رو سے گویا باندھ رکھا تھا۔ تاہم نواب نے کبھی انگریزوں سے دَب کر یا جھک کر بات نہیں کی بلکہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہے۔
آصفُ الدّولہ کی بدولت لکھنؤ، دہلی اور آگرہ کے ساتھ آثار قدیمہ اور فن تعمیر کے شوقین سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتوں میں رومی دروازہ اور امام باڑہ فنِ تعمیر کا اچھوتا نمونہ ہیں۔
علم و ادب کے میدان میں ان کا عہد ہی تھا جب مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسی شخصیات لکھنؤ میں جمع ہوئیں۔ انھوں نے سوز کو شاعری میں اپنا استاد بنایا۔
آصف الدّولہ کے عہد تک اردو شاعری بنیادی طور پر غزل یا قصیدہ کی شاعری تھی۔ ان کے عہد میں مثنوی اور مرثیہ کی طرف خاص توجہ دی گئی۔ میر حسن کی سحر البیان سمیت اردو کی بہترین مثنویاں ان ہی کے عہد میں لکھی گئیں۔
وہ والیِ اودھ نواب شجاعُ الدّولہ کے بیٹے تھے جو باپ کی وفات کے بعد 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے اور پھر لکھنؤ کو دارُالحکومت بنایا۔
مشہور ہے کہ نواب آصف الدّولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دَم پخت کہتے ہیں۔ ان کے دور میں نت نئے اور خوش ذائقہ پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے ماہر طباخ رکھے ہوئے تھے۔
نواب صاحب نے لکھنؤ میں 1797ء میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔