اردو زبان و ادب کو پطرس بخاری کے قلم نے انشائیوں کے ساتھ بیک وقت مزاح، بہترین تنقیدی مضامین اور عمدہ تراجم دیے، لیکن وہ صرف اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ صحافت میں جیّد، صدا کاری و شعبۂ نشریات میں ماہر اور ایک منجھے ہوئے سفارت کار بھی کہلائے۔ آج پطرس بخاری کا یومِ وفات ہے۔
1898ء میں پشاور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے پروفیسر احمد شاہ بخاری نے اپنے قلمی نام پطرس بخاری سے شہرت پائی۔ وہ اردو، فارسی، پشتو اور انگریزی پر دسترس رکھتے تھے۔ ان کا انگریزی زبان کا درست تلفّظ مشہور تھا۔
احمد شاہ بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اپنے علم و ادب کے شوق کے سبب کالج کے معروف مجلّے ’راوی‘ کی ادارت سنبھالی۔ یہیں سے ان کے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز بھی ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج گئے جہاں ان کی دل چسپی اور رغبت انگریزی شعروادب میں بڑھی اور انھوں نے انگریزی کے ادب پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔ ہندوستان واپس آکر بھی انھوں نے یہ سلسلہ جاری رکھا اور دوسرے ادیبوں کو بھی ترجمے اور تالیف کی طرف راغب کیا۔
ان کی ادبی خدمات اور فنونِ لطیفہ میں دل چسپی نے انھیں آل انڈیا ریڈیو کے ناظمِ اعلیٰ کے منصب پر پہنچایا، لیکن ان کی اردو سے محبّت اور ریڈیو پر ان کے بعض فیصلوں نے انھیں غیرمقبول اور بعض شخصیات کی نظر میں ناپسندیدہ بنا دیا اور وہ سازشوں اور شکایات کی وجہ سے تنگ آگئے اور جب انھیں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ پیش کیا گیا تو انھوں نے فوراً یہ پیش کش قبول کر لی۔
بخاری صاحب علمی و ادبی شخصیت اور باصلاحیت ہی نہیں ذہین، مدبّر اور معاملہ فہم بھی تھے جنھیں لیاقت علی خاں نے سفارت کار کے طور پر منتخب کرلیا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکا بخاری صاحب کو پاکستانی ترجمان کے طور پر ساتھ لے گئے۔ پچاس کے عشرہ میں پطرس بخاری اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ بعد میں وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی بنائے گئے۔ اسی زمانے میں ان کا انتقال ہوا۔ 5 دسمبر 1958ء کو پطرس بخاری نیویارک میں چل بسے۔
پطرس کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی تھی۔ انھوں نے پشاور سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور بی اے کرنے کے بعد 1922ء میں لاہور یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ انھوں نے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی تھی۔
وطن واپسی پر گورنمنٹ کالج لاہور میں کئی سال تک ادبیات کے پروفیسر رہے اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی سے وابستہ رہے۔
پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ وہ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع تھے جن کی کئی پُرلطف اور دلچسپ باتیں مشہور ہیں۔
ہاسٹل میں پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں کے علاوہ ان کے کئی شگفتہ مضامین اور خطوط بالخصوص قارئین میں مقبول ہیں۔