اردو کے معروف شاعر حکیم ناصر 28 جولائی 2007ء کو راہیِ ملک عدم ہوئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کی ایک مشہور غزل کا یہ شعر آپ نے ضرور سنا ہو گا۔
جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
غزل کی اسی لڑی کا یہ شعر بھی ملاحظہ کیجیے۔
پتھرو! آج میرے سَر پر برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے
1947ء میں اجمیر شریف (بھارت) میں جنم لینے والے حکیم ناصر کا اصل نام محمد ناصر تھا۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی آ گئے تھے جہاں اپنا مطب کھولا اور اسے یافت کا ذریعہ بنایا۔ ان کے والد اور دادا بھی حکیم تھے۔ حکیم ناصر نے مطب کو وقت دینے کے ساتھ ساتھ شاعری جاری رکھی جو روایت و جدّت کا حسین امتزاج تھی۔ وہ بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے، لیکن اسے ایک منفرد اور نئے آہنگ سے اشعار میں سمویا۔ ندرتِ خیال اور دل کش اندازِ بیاں نے ان کی شاعری کو پُراثر اور مقبول بنایا۔
یہاں ہم حکیم ناصر کے چند اشعار قارئین کے ذوق کی نذر کررہے ہیں۔
اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
تُو نے کیا مجھ کو محبّت میں بنا رکھا ہے
آپ سے آنکھیں ملی تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا
لوگ کہتے ہیں کہ ایسی بے خودی دیکھی نہ تھی
ہاتھ اٹھتے ہوئے ان کے نہ کوئی دیکھے گا
کسی کے آنے کی کریں گے وہ دعا میرے بعد
تمہارے بعد اجالے ہی ہو گئے رخصت
ہمارے شہر کا منظر بھی گائوں جیسا ہے